إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
بیشک جو لوگ ایمان کے ساتھ (سنت کے مطابق) نیک کام کرتے ہیں نمازوں کو قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب تعالیٰ کے پاس ہے ان پر نہ تو کوئی خوف ہے، نہ اداسی اور غم
اللہ تعالیٰ نے جب سود خوروں کا ذکر فرمایا اور واضح ہے کہ اگر انہیں ایمان نافع حاصل ہوتا تو ان سے یہ جرم سر زد نہ ہوتا۔ تو اس کے بعد مومنوں کا ذکر فرمایا، ان کو ملنے والا ثواب بیان فرمایا اور انہیں ایمان والے کہہ کر مخاطب فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ سود لینا چھوڑ دیں اگر وہ مومن ہیں۔ ایسے لوگ ہی اللہ کی نصیحتیں قبول کرتے اور اس کے احکامات تسلیم کرتے ہیں۔ اللہ نے انہیں تقویٰ کا حکم دیا ہے اور تقویٰ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ موجودہ لین دین کے سلسلے میں جو سود کسی کے ذمہ ہے اسے چھوڑ دیں، وصول نہ کریں۔ باقی رہا وہ سود جو پہلے لیا جا چکا ہے تو اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ جو شخص نصیحت قبول کر کے آئندہ سود لینے سے اجتناب کرے گا، اس کا سابقہ گناہ معاف ہوجائے گا اور جس نے اللہ کی نصیحت قبول نہ کی اور باز نہ آیا وہ اللہ کا مخالف اور اللہ سے جنگ کرنے والا ہے۔ بھلا ایک عاجز ضعیف بندہ اس رب کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔ وہ ظالم کو مہلت تو دیتا ہے، اسے چھوڑتا نہیں۔