وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
تم سے جو مرد عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کر دو (١) اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی (٢) اگر وہ مفلس بھی ہونگیں تو اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا (٣) اللہ تعالیٰ کشادگی والا علم والا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سر پرستوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان مجرد عورتوں اور مردوں کا نکاح کریں جو ان کی سر پرستی میں ہیں۔ (أَيَامَىٰ) سے مراد وہ مرد اور عورتیں ہیں جن کی بیویاں اور شوہر نہ ہوں یعنی کنوارے اور رنڈوے مردو زن لہذا قریبی رشتہ داروں اور یتیموں کے سر پرستوں پر واجب ہے کہ وہ ایسے مردو زن کا نکاح کریں جو نکاح کے محتاج ہیں، یعنی جن کی کفالت ان پر واجب ہے۔ جب وہ ان لوگوں کا نکاح کرنے پر مامور ہیں جو ان کے زیر دست میں تو خود اپنے نکاح کا حکم تو زیادہ موکد اور اولیٰ ہے۔ ﴿ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ﴾ ” اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی۔“ اس میں یہ احتمال ہے کہ صالحین سے مراد وہ لونڈی اور غلام ہیں جو دینی اعتبار سے صالح ہوں کیونکہ لونڈیوں اور غلاموں میں سے جو لوگ دینی اعتبار سے صالح ہیں، وہی لوگ ہیں جو بدکار اور زانی نہیں ہوتے، ان کا آقا اس بات پر مامور ہے کہ وہ ان کا نکاح کرے، یہ ان کی صالحیت کی جزا اور اس کی ترغیب ہے، نیز زنا کار کا نکاح کرنے سے روکا گیا ہے۔ تب یہ اس حکم کی تائید ہے جس کا ذکر سورت کی ابتداء میں کیا گیا ہے کہ زانی اور زانیہ جب تک توبہ نہ کریں، ان کا نکاح حرام ہے۔۔۔ اور آزاد مردوزن کی بجائے غلاموں کے نکاح کے لیے صالحیت کی تخصیص اس لیے ہے کہ عادتاً غلاموں میں فسق و فجور زیادہ ہوتا ہے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ صالحین سے مراد وہ لونڈی اور غلام ہوں جو نکاح کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نکاح کے محتاج ہوں۔ اس معنی کی تائید یہ بات بھی کرتی ہے کہ جب تک مملوک نکاح کا حاجت مند نہ ہو اس کا مالک اس کا نکاح کرنے پر مامور نہیں۔۔۔۔ اور یہ بھی کوئی بعید بات نہیں کہ اس سے دونوں ہی معنی مراد ہوں۔ واللہ اعلم ﴿ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ ﴾ ” اور اگر ہوں گے وہ تنگ دست۔“ یعنی خاوند اور نکاح کرنے والے ﴿ يُغْنِهِمُ اللّٰـهُ مِن فَضْلِهِ ﴾ ” تو غنی کر دے گا اللہ ان کو اپنے فضل سے۔“ پس تمہیں یہ وہم نکاح کرنے سے نہ روک دے کہ جب تم نکاح کرلو گے تو عائل بوجھ کی وجہ سے محتاج ہوجاؤ گے۔ اس آیت کریمہ میں نکاح کی ترغیب ہے نیز نکاح کرنے والے سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اسے فقر کے بعد فراخی اور خوش حالی حاصل ہوگی۔ ﴿ وَاللّٰـهُ وَاسِعٌ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ بہت زیادہ بھلائی اور فضل عظیم کا مالک ہے۔ ﴿ عَلِيمٌ ﴾ وہ ان سب کو جانتا ہے جو اس کے دینی اور دنیاوی فضل یا کسی ایک کے مستحق ہیں اور وہ انہیں بھی جانتا ہے جو اس کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ ان سب کو اپنے علم اور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق عطا کرتا ہے۔