سورة النور - آیت 11

إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں (١) یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے (٢) تم اسے اپنے لئے برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے (٣) ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سر انجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہے (٤)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

چونکہ گزشتہ سطور میں اللہ تعالیٰ نے زنا کے بہتان کی برائی کا عمومی ذکر فرمایا وہ گویا اس بہتان کا مقدمہ ہے جو دنیا کی افضل ترین خاتون، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا۔ یہ آیات کریمہ مشہور قصہء افک کے بارے میں نازل ہوئیں۔ بہتان کا یہ واقعہ تمام صحاح، سنن اور اور مسانید میں صحت کے ساتھ منقول ہے۔ اس تمام قصہ کا حاصل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی غزوہ میں تھے، آپ کے ساتھ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ ان کا ہار ٹوٹ کر کہیں گرگیا ، وہ اس کی تلاش میں رک گئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساربان آپ کے اونٹ اور ہودج سمیت لشکر کے ساتھ کوچ کر گئے اور ان کو ہودج میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی عدم موجودگی کا علم نہ ہوا اور لشکر کوچ کر گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہار کی تلاش کے بعد واپس اس جگہ پہنچیں تو لشکر موجود نہ تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو معلوم تھا کہ جب لشکر والے انہیں ہودج میں مفقود پائیں گے تو واپس لوٹیں گے۔ پس انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ افاضل صحابہ میں شمار ہوتے ہیں انہوں نے لشکر کے آخری لوگوں کے ساتھ رات کے آخری حصے میں پڑاؤ کیا اور سوتے رہ گئے تھے۔ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو پہچان لیا حضرت صفوان رضی اللہ عنہ نے اپنی سواری بٹھائی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس پر سوار کرایا۔ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی بات کی نہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کوئی بات کی، پھر وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سواری کی مہار پکڑے دوپہر کے وقت جبکہ لشکر بھی پڑاؤ کے لیے اتر اچکا تھا، پڑاؤ میں پہنچ گئے۔ پس جب منافقین میں سے، جو اس سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، کسی نے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کو اس حالت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آتے دیکھا تو اس نے بہتان طرازی کی خوب اشاعت کی، بات پھیل گئی، زبانیں ایک دوسرے سے اخذ کرتی چلی گئیں یہاں تک کہ بض مخلص مومن بھی دھوکہ کھاگئے اور وہ بھی بات پھیلانے کے مرتکب ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طویل مدت تک وحی ناز ل نہ ہوئی بہت مدت کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو منافقین کے بہتان کا علم ہوا اس پر انہیں شدید صدمہ پہنچا، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت میں یہ آیات کریمہ نازل فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو نصیحت فرمائی اور ان کو مفید وصیتوں سے سرفراز کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ﴾ ” وہ لوگ جو نہایت قبیح جھوٹ گھڑ کر لائے ہیں۔“ اس سے مراد وہ بہتان ہے جو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا۔ ﴿عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ﴾ اے مومنو ! بہتان طرازی کرنے والا گروہ تمہاری ہی طرف منسوب ہے۔ ان میں کچھ لوگ سچے مومن بھی ہیں مگر منافقین کے بہتان کو پھیلانے سے دھوکہ کھا گئے۔ ﴿لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ﴾ ” تم اس کو اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ وہ تمہارے بہتر ہے۔“ کیونکہ یہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت، ان کی پاک دامنی اور ان کی تعظیم و توقیر کے اعلان کو متضمن ہے حتیٰ کہ یہ عمومی مدح تمام ازواج مطہرات کو شامل ہے۔ نیز اس میں ان آیات کا بھی بیان ہے بندے جن کے محتاج ہیں اور جن پر قیامت تک عمل ہوتا رہے گا۔ پس یہ سب کچھ بہت بڑی بھلائی ہے۔ اگر بہتان طراز منافقین نے بہتان نہ لگایا ہوتا تو یہ خیر عظیم حاصل نہ ہوتی اور جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لیے سبب پیدا کردیتا ہے، اسی لیے اس کا خطاب تمام مومنین کے لیے عام ہے نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اہل ایمان کا ایک دوسرے پر عیب لگانا خود اپنے آپ پر عیب لگانے کے مترادف ہے۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان آپس میں محبت و مودت، ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور باہم نرمی کا رویہ رکھنے اور اپنے مصالح میں اکٹھے ہونے کے لحاظ سے جسد و احد کی مانند ہیں اور ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے دونوں ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث ہیں۔ پس جیسے وہ چاہتا ہے کہ کوئی شخص اس کی عزت و آبرو پر عیب نہ لگائے اسی طرح اس کو یہ بھی ناپسند ہونا چاہیے کہ کوئی شخص اپنے کسی بھائی کی عزت و ناموس پر عیب نہ لگائے جو خود اس کے نفس کی مانند ہے۔ اگر بندہ اس مقام پر نہ پہنچے تو یہ اس کے ایمان کا نقص اور اس میں خیر خواہی کا نہ ہونا ہے۔ ﴿لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ﴾ ” ان میں سے ہر آدمی کے لیے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا۔“ یہ ان لوگوں کے لیے وعید ہے جنہوں نے حضرت عائشہ طاہرہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا تھا اور انہیں عنقریب ان کی بہتان طرازی کی سزا دی جائے گی، چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حد جاری فرمائی ﴿وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ ﴾ ” جس نے اس کے بڑے حصے کو سر انجام دیا ہے۔“ یعنی وہ شخص جس نے بہتان کے اس واقعے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس سے مراد خبیث منافق، عبداللہ بن ابی ابن سلول (لَعَنَهُ اللّٰهُ) ﴿ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾ اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔“ اس سے مراد ہے کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہمیشہ رہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کی کہ جب وہ اس قسم کی بات سنیں تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔