مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ
اکڑتے اینٹھتے (١) افسانہ گوئی کرتے اسے چھوڑ دیتے تھے (٢)۔
﴿ مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ ﴾ ” تکبر کرتے ہوئے ساتھ اس کے افسانہ گوئی کرتے ہوئے تم بیہودہ بکتے تھے۔“ اصحاب تفسیر اس کا یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ ﴿ مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ ﴾ میں ضمیر بیت اللہ یا حرم کی طرف لوٹتی ہے، جو مخاطبین کے ہاں معبود (ذہن میں موجود) ہے یعنی تم حرم یا بیت اللہ کے سبب سے لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش آتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ ہم اہل حرم ہیں بنا بریں ہم دوسروں سے اعلیٰ و افضل ہیں۔ ﴿ سَامِرًا ﴾ یعنی جماعت کی صورت میں رات کے وقت بیت اللہ کے گرد بیٹھ کر باتیں کرتے ﴿ تَهْجُرُونَ ﴾ یعنی تم اس قرآن عظیم کے بارے میں قبیح گفتگو کرتے تھے۔ پس قرآن کریم کے بارے میں اہل تکذیب کا طریقہ روگردانی پر مبنی تھا اور اسی طریقے کی وہ ایک دوسرے کو صیت کیا کرتے تھے۔﴿ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ﴾ (حمٓ السجدۃ :41؍26)” وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کہتے ہیں کہ اس قرآن کو مت سنو، جب سنایا جائے تو شور مچا دیا کرو شاید کہ تم غالب رہو“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا : ﴿ أَفَمِنْ هَـٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ وَأَنتُمْ سَامِدُونَ﴾ (النجم:53؍59۔60) ”کیاتم اس کلام کے بارے میں تعجب کرتے ہو،ہنستےہواور روتے نہیں ہوا اورتم غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔“اور فرمایا: ﴿ أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ ﴾ (الطور : 52؍33)” کیا کفار یہ کہتے ہیں کہ اپ نے یہ قرآن خود گھڑا لیا ہے ؟ “ وہ ان رذائل کے جامع تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان پر عذاب واجب ہوگیا اور جب یہ عذاب واقع ہوگیا تو ان کا کوئی حامی بنا جو ان کی مدد کرسکے نہ فریاددرس بنا ہوگا جو ان کو اس عذاب سے بچا سکے اس وقت ان کے اعمال بد کی بنا پر ان کی زجزو توبیخ کی گئی۔