الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے (١) اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ﴿يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ﴾ ” وہ تم سے وعدہ کرتا ہے اپنی بخشش کا“ یعنی تمہیں گناہوں سے پاک کرنے کا﴿وَفَضْلًا﴾” اور فضل کا“ جس سے دنیا اور آخرت میں تمہارا بھلا ہوگا۔ یعنی جو خرچ کرتے ہو، ویسا ہی جلد ہی (دنیا میں) تمہیں دے گا، دلوں کو خوشی اور سکون اور قبر میں راحت حاصل ہوگی۔ قیامت کے دن اس کا پورا پورا ثواب بھی ملے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتنا زیادہ اجر و ثواب اور انعام دینا مشکل نہیں۔ کیونکہ وہ ﴿وَاسِعٌ﴾” وسعت والا“ یعنی وسیع فضل اور عظیم احسان کرنے والا ہے اور تمہارے کئے ہوئے خرچ کو ﴿عَلِيمٌ﴾” جاننے والا ہے“ خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، خفیہ ہو یا ظاہر، لہٰذا اپنے فضل و احسان سے اس کا بدلہ دے گا۔ اب بندے کو خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے کہ اسے اللہ کی بات ماننی ہے یا شیطان کی؟ ان دو آیات میں بہت سے اہم مسائل مذکور ہیں : (١) اللہ کی راہ میں خرچ کی ترغیب (٢) وضاحت کہ خرچ کرنا کیوں ضروری ہے (٣) سونے چاندی اور سامان تجارت میں زکوٰۃ کا حکم کیونکہ یہ ﴿مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ﴾ میں شامل ہیں۔ (٤) غلہ، پھل اور معدنیات میں زکوٰۃ واجب ہے۔ (٥) زکوٰۃ اس پر واجب ہے جو غلہ اور پھل کا مالک ہے۔ زمین کے مالک پر واجب نہیں کیونکہ ارشاد ہے ﴿ أَخْرَجْنَا لَكُم ﴾لہٰذا زمین جس کے لئے یہ اشیا اگاتی ہے، زکوٰۃ بھی اس پر واجب ہے۔ (٦) ان مالوں پر زکوٰۃ نہیں جو اپنی ذاتی ضروریات کے لئے رکھے گئے ہوں مثلاً قطعہ زمین اور برتن وغیرہ۔ اسی طرح اگر معلوم نہ ہو کہ فلاں نے میرا قرض ادا کرنا ہے، یا کسی نے مال پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، یا مال اور قرض ایسے شخص کے پاس ہے جس سے واپس لینے کی طاقت نہیں، تو ایسے اموال پر زکوٰۃ نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان مالوں سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے جو بڑھتے ہیں یعنی زمین سے حاصل ہونے والی اشیا اور اموال تجارت اور جو مال اس مقصد کے لئے تیار نہیں رکھے گئے یا جن مالوں کو حاصل کرنا ممکن نہیں، ان میں یہ صوف نہیں پایا جاتا ہے۔ (٧) نکمی چیز دینا منع ہے، ایسی چیز دینے سے زکوٰۃ کا فرض ادا نہیں ہوگا۔