بَلْ قُلُوبُهُمْ فِي غَمْرَةٍ مِّنْ هَٰذَا وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِّن دُونِ ذَٰلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ
بلکہ ان کے دل اس طرف سے غفلت میں ہیں اور ان کے لئے اس کے سوا بھی بہت سے اعمال ہیں (١) جنہیں وہ کرنے والے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ جھٹلانے والے، اس بارے میں جہالت میں مبتلا ہیں یعنی جہالت، ظلم، غفلت اور روگردانی میں غلطاں ہیں یہ جہالت اور غفلت انہیں قرآن تک نہیں پہنچنے دیتی۔ پس یہ قرآن سے راہنمائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں اور قرآن سے ان کے دلوں تک کچھ نہیں پہنچتا۔ فرمایا : ﴿وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ﴾ )بنی اسرائیل :17؍45، 46) ” جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو آپ کے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہم ایک پردہ حائل کردیتے ہیں اور دلوں پر غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دیتے ہیں۔“ اور جب ان کے دل غفلت اور جہالت میں مستغرق ہیں تو وہ اپنے حسب حال کفریہ اور شریعت کے خلاف اعمال بجا لائیں گے جو ان کے لیے عذاب کے موجب ہیں۔ ﴿ وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِّن دُونِ ذَٰلِكَ ﴾ مگر ان کے علاوہ بھی ان کے برے اعمال ہیں ﴿هُمْ لَهَا عَامِلُونَ ﴾ ” جنہیں وہ کرنے والے ہیں۔“ یعنی وہ عذاب کے عدم وقوع پر تعجب نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ ان اعمال بد کا ارتکاب بھی کرلیں جو باقی رہ گئے ہیں اور جو ان کے لیے درج کئے گئے ہیں۔ جب وہ ان اعمال بد کا پوری طرح ارتکاب کرلیں گے تو وہ بدترین حالت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے غضب اور غذاب میں منتقل ہوں گے۔ گویا پوچھا گیا کہ وہ کون سا سبب ہے جس نے ان کو اس حال پر پہنچایا تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ﴾ ”میری آیات پڑھی جاتی تھیں تم پر۔“ تاکہ تم ان آیات پر ایمان لاؤ اور ان کی طرف توجہ کرو مگر تم نے ایسا نہ کیا بلکہ اس کے برعکس ﴿فَكُنتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ تَنكِصُونَ ﴾ ” تم پیچھے کی طرف الٹے پاؤں پھرتے رہے کیونکہ قرآن کی اتباع کے ذریعے سے لوگ آگے بڑھتے ہیں اور اس سے روگردانی کر کے پیچھے رہ جاتے ہیں اور پست ترین مقام پر جا اترتے ہیں۔