مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ اسے چاہے اور بڑھا دے (١) اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
اس آیت میں اللہ کے اس ارشاد کی تشریح ہوتی ہے ﴿مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ﴾ (البقرہ:2؍ 245) ” کون شخص ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے تو اللہ اس کے قرض کو اس کے لئے کئی گنا بڑھا دے گا یہاں فرمایا ﴿مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾” مثال ان لوگوں کی جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔“ یعنی اس کی اطاعت میں اور اس کی خوشنودی کے کاموں میں۔ ان میں سب سے اہم جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے۔ ﴿كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ﴾” مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں، اور ہر بالی میں سودانے ہوں۔“ اس مثال کے ذریعے عمل کے ثواب میں اضافے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ اضافہ بندہ دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ثواب میں اضافے کو اپنی بصیرت سے دیکھتا ہے۔ اس طرح آنکھوں دیکھی چیز کی وجہ سے ایمان کے ذریعے دیکھی ہوئی چیز پر یقین بڑھتا ہے۔ لہٰذا دل حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پوری آمادگی کے ساتھ خرچ کرتا ہے۔ کیونکہ اسے اس قدر اضافے اور اس اللہ کے عظیم احسان کی امید ہوتی ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ﴾” اور اللہ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے۔“ یعنی خرچ کرنے والے کے حال اور اس کے خلوص کے مطابق، یا خرچ کی کیفیت، منافع اور برمحل ہونے کی مناسبت سے ثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ﴾” اور اللہ بڑھا چڑھا کر دے۔“ اس سے بھی زیادہ﴿ لِمَن يَشَاءُ﴾” جسے چاہے“ یعنی بے حساب اجر و ثواب عنایت فرمائے۔﴿وَاللَّـهُ وَاسِعٌ﴾” اور اللہ کشادگی والا ہے۔“ اس کا فضل وسیع ہے، اس کی عطا بے حساب ہے جس میں کسی قسم کی کمی نہیں آتی۔ لہٰذا خرچ کرنے والے کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ شاید کئی گنا بڑھا کردینے کا ذکر مبالغے کے طور پر کیا گیا ہے۔ اللہ کے لئے تو کوئی انعام بھی مشکل نہیں۔ بے شمار عطا کے باوجود اسے کمی نہیں آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ﴿عَلِيمٌ ﴾ وہ علیم بھی ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کون اس دگنے چوگنے ثواب کا مستحق ہے اور کون نہیں۔ لہٰذا وہ اضافہ وہیں کرتا ہے جہاں اس کا صحیح مقام ہو، کیونکہ اس کا علم بھی کامل ہے اور حکمت بھی۔