وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ ۖ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۗ قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكُمُ ۗ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
جب ان کے سامنے ہمارے کلام کی کھلی ہوئی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو آپ کافروں کے چہروں پر ناخوشی کے صاف آثار پہچان لیتے ہیں۔ وہ قریب ہوتے ہیں کہ ہماری آیتیں سنانے والوں پر حملہ کر بیٹھیں، (٢) کہہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ بدتر خبر دوں۔ وہ آگ ہے، جس کا وعدہ اللہ نے کافروں سے کر رکھا ہے، (٣) اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ﴾ ” جب پڑھی جاتی ہیں ان پر ہماری واضح آیات۔“ وہ جو اللہ تعالیٰ کی جلیل القدر آیات ہیں اور باطل میں سے حق کو واضح کرنے کو مستلزم ہیں۔۔۔ تو یہ ان آیات کی طرف التفات کرتے ہیں نہ ان کو درخور اعتناء سمجھتے ہیں بلکہ اس کے برعکس ﴿ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ ﴾ آپ ان کے چہروں کو، ان آیات الٰہی کے ساتھ ان کے بغض و کراہت کی بنا پر، بگڑا ہوا اور ان کو منقبض اور ترش رو دیکھتے ہیں۔ ﴿ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا﴾ یعنی ان کے شدت بغض اور حق کے ساتھ عناد اور عداوت کی وجہ سے قریب ہے کہ وہ ان آیات کی تلاوت کرنے والے کو قتل کرنے یا مارنے کے لئے اس پر چڑھ دوڑیں۔ پس کفار کی یہ حالت بہت ہی بری حالت اور ان کا شر بہت ہی برا شر ہے مگر ان کی ایک حالت اس سے بھی بدتر ہے جس کی طرف یہ لوٹیں گے، اس لئے فرمایا : ﴿ قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكُمُ ۗ النَّارُ وَعَدَهَا اللّٰـهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴾ ” کہہ دیجئے ! کیا میں تمہیں خبر دوں اس سے بھی بدتر چیز کی، وہ آگ ہے جس کا وعدہ اللہ نے کافروں سے کیا ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔“ پس اس کا شر بہت طویل اور عریض ہے، اس کے آلام بہت شدید ہیں جو ہمیشہ بڑھتے ہی رہیں گے۔