سورة الحج - آیت 63

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً ۗ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برساتا ہے، پس زمین سر سبز ہوجاتی ہے، بیشک اللہ تعالیٰ مہربان اور باخبر ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آیات الٰہی میں تفکر و تدبر کی ترغیب ہے، جو اس کی وحدانیت اور اس کے کمال پر دلالت کرتی ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ أَلَمْ تَرَ ﴾ یعنی کیا تم نے چشم بصارت اور چشم بصیرت سے دیکھا نہیں؟ ﴿ أَنَّ اللّٰـهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ﴾ ” بے شک اللہ اتارتا ہے آسمان سے پانی۔“ اس سے مراد بارش ہے جو پیاسی اور قحط زدہ زمین پر، جس کے کنارے غبار آلود اور اس میں موجود تمام درخت اور نباتات خشک ہوچکے ہوتے ہیں، نازل ہوتی ہے۔ پس زمین سرسبز ہوجاتی ہے، ہر قسم کا خوبصورت لباس پہن لیتی ہے اور اس طرح زمین خوش منظر بن جاتی ہے۔ بلاشبہ وہ ہستی جس نے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کیا، مردوں کو ان کے بوسیدہ ہوجانے کے بعد زندہ کرے گی۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ ﴾ (للطیف)سے مراد وہ ہستی ہے جو تمام اشیاء کے باطن، ان کے مخفی امور اور ان کے تمام بھیدوں کو خوب جانتی ہے، جو اپنے بندوں کو ان دیکھے راستوں سے بھلائی عطا کرتی ہے اور ان سے برائی کو دور کرتی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ وہ اپنے بندے کو اپنے انتقام میں اپنی قوت اور اپنی قدرت کاملہ کا نظارہ کرواتا ہے اور جب بندہ ہلاکت کے گڑھے پر پہنچ جاتا ہے تو اس پر اپنے لطف کا اظہار کرتا ہے۔ یہ بھی اس کے لطف و کرم کا حصہ ہے کہ وہ بارش ہونے کی جگہوں اور زمین کے سینے میں چھپے ہوئے بیجوں کو جانتا ہے۔ وہ بارش کے اس پانی کو اس بیج تک پہنچاتا ہے۔ جو مخلوق سے مخفی ہے پھر اس سے مختلف انواع کی نباتات اگاتا ہے۔ ﴿ خَبِيرٌ ﴾ وہ تمام امور کے رازوں اور تمام سینوں کے بھیدوں کی خبر رکھتا ہے۔