سورة الحج - آیت 62

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے (١) اور اس کے سوا جسے بھی پکارتے ہیں وہ باطل ہے بیشک اللہ ہی بلندی والا کبریائی والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ ذٰلِكَ ﴾ یہ حکم اور احکام والی ہستی ﴿ بِأَنَّ اللّٰـهَ هُوَ الْحَقُّ ﴾ وہ ثابت ہے جو ہمیشہ سے ہے، وہ زائل ہونے والی نہیں، وہ ” اول“ ہے اس سے پہلے کچھ نہ تھا وہ ” آخر“ ہے اس کے بعد کچھ نہیں، وہ کامل اسماء و صفات کا مالک، وعدے کا سچا، اس کا وعدہ حق ہے، اس سے ملاقات ہونا حق ہے، اس کا دین حق ہے، اس کی عبادت حق، نفع مند اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ ﴿ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ ﴾ اور اس کے سوا تم جن بتوں اور جمادات و حیوانات میں سے خود ساختہ خداؤں کو پکارتے ہو ﴿ هُوَ الْبَاطِلُ ﴾ وہ فی نفسہ باطل ہیں اور ان کی عبادت بھی باطل ہے کیونکہ یہ ایسی ہستی سے متعلق ہے جو مضمحل اور فانی ہے، لہٰذا وہ بھی اپنے باطل مقصد کی بنا پر باطل ہے۔ ﴿ وَأَنَّ اللّٰـهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ ﴾ وہ فی ذاتہ بلند ہے، اس لئے وہ تمام مخلوقات سے بلند ہے، وہ عالی قدر ہے، اس لئے وہ اپنی صفات میں کامل ہے، وہ تمام مخلوقات پر غالب ہے، وہ اپنی ذات اور اسماء و صفات میں بلند ہے۔ یہ اس کی عظمت و کبریائی ہے کہ قیامت کے روز زمین اس کے قبضہ قدرت میں اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ پر لپٹے ہوئے ہوں گے۔ یہ اس کی کبریائی ہے کہ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر محیط ہے، یہ اس کی کبریائی ہے کہ تمام بندوں کی پیشانیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ اس کی مشیت کے بغیر تصرف نہیں کرسکتے۔ وہ اس کے ارادے کے بغیر حرکت کرسکتے ہیں نہ ساکن ہوسکتے ہیں۔ اس کی کبریائی کی حقیقت کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے نہ کوئی نبی مرسل۔ ہر صفت کمال و جلال، اور عظمت و کبریائی اس کے لئے ثابت ہے۔ اس کی یہ صفت کامل ترین اور جلیل ترین درجے پر ہے۔ یہ اس کی کبریائی ہے کہ زمین و آسمان والوں سے صادر ہونے والی عبادات کا مقصد وحید اس کی تعظیم و کبریائی کا اقرار اور اس کے جلال و اکرام کا اعتراف ہے، بنا بریں تکبیر تمام بڑی بڑی عبادات مثلاً نماز وغیرہ کا شعار ہے۔