سورة الأنبياء - آیت 90

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

ہم نے اس کی دعا قبول فرما کر اسے یحٰی (علیہ السلام) عطا فرمایا (١) اور ان کی بیوی کو ان کے لئے درست کردیا (٢) یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے۔ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے (٣)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ ﴾ ” پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا۔“ جو ایسا مکرم نبی ہے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس نام کا کوئی شخص نہیں کیا ﴿ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ﴾ ” اور ہم نے درست کردیا اس کے لئے اس کی بیوی کو۔ “یعنی حضرت زکریا علیہ السلام کی بیوی بانجھ تھیں اور ان کا رحم بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی زکریا علیہ السلام کی خاطر ان کے رحم کو درست کر کے اسے حمل کے قابل بنا دیا۔ نیک ساتھی اور ہم نشین کے فوائد میں سے ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے لئے بابرکت ہوتا ہے۔ پس حضرت یحییٰ علیہ السلام ماں باپ میں (برکت کے لئے )مشترک ہوگئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان تمام انبیاء و مرسلین کا فرداً فرداً ذکر کرنے کے بعد ان سب کو عمومی مدح و ثنا سے نوازا ہے چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ ﴾ یعنی وہ نیکیوں میں سبقت کرتے تھے، اوقات فاضلہ میں نیکیاں کرتے تھے اور ان کی تکمیل اس طریقے سے کرتے تھے جو ان کے لائق اور ان کے لئے مناسب ہو۔ وہ مقدور بھر کسی فضیلت کو نہ چھوڑتے تھے اور فرصت کو غنیمت جانتے تھے ﴿وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ﴾ یعنی ہم سے دنیا و آخرت کے مرغوب امور کا سوال کرتے تھے اور دنیا و آخرت کے ضرر رساں، خوفناک امور سے ہماری پناہ طلب کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت رکھتے تھے، وہ غافل اور کھیل کود میں ڈوبے ہوئے تھے نہ اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی اور جرأت کرتے تھے۔ ﴿ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ ﴾ یعنی ہمارے سامنے خشوع، تذلل اور انکساری کا اظہار کرتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنے رب کی کامل معرفت رکھتے تھے۔