قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي
اس نے جواب دیا کہ مجھے وہ چیز دکھائی دی جو انھیں دکھائی نہیں دی، تو میں نے قاصدِ الٰہی کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر لی اسے اس میں ڈال دیا (١) اسی طرح میرے دل نے یہ بات میرے لئے بھلی بنا دی۔
سامری نے جواب دیا۔ ﴿بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا﴾ ” مَیں نے وہ چیزی دیکھی جو انہوں نے نہیں دیکھی“۔ یعنی وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جن کو سامری نے سمندر سے باہر نکلتے اور فرعون کے اپنے لشکر ڈوبتے وقت گھوڑی پر سوار دیکھا۔ جیسا کہ مفسرین کی رائے ہے۔ یعنی میں نے گھوڑی کے سم کے نیچے سے خاک کی ایک مٹھی اٹھائی اور بچھڑے (کے بت) پر ڈال دی۔ ﴿وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي ﴾ میرے نفس میں مجھے ایسے ہی سمجھایا تھا کہ مَیں (جبریل کے نقش پا سے) ایک مٹھی خاک لوں اور اسے اس بچھڑے پر ڈال دو اور اس طرح وہ کچھ ہوجائے جو ہوگیا۔