قَالُوا إِنْ هَٰذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَن يُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَىٰ
کہنے لگے یہ دونوں محض جادوگر ہیں اور ان کا پختہ ارادہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں اور تمہارے بہترین مذہب کو برباد کریں (١)۔
وہ سرگوشی، جو وہ آپس میں کر رہے تھے، اس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قَالُوا إِنْ هَـٰذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَن يُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا﴾ ” انہوں نے کہا، یہ دونوں جادوگر ہیں جو تمہیں اپنے جادو کے ذریعے سے تمہاری زمین سے نکالنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ قول فرعون کے قول کی مانند ہے جو گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ یا تو فرعون اور جادوگروں میں بغیر کسی قصد کے اس قول پر اتفاق ہوا یا فرعون نے ان جادو گروں کو اس قول کی تلقین کی جس کا اس نے لوگوں کے سامنے اظہار کیا تھا اور لوگوں سے کہلوایا تھا، چنانچہ جادوگروں نے فرعون کی بات پر اضافہ کرتے ہوئے کہا : ﴿وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَىٰ﴾ ” اور تمہارے بہترین طریقے کو ختم کردیں۔“ یعنی تمہارا جادو کا طریقہ جس پر موسیٰ تمہارے ساتھ حسد کرتا ہے اور تم پر غالب آنا چاہتا ہے تاکہ اسے فخر اور شہرت حاصل ہو اور اس علم کا مقصد بھی یہی ہے جس میں تم ایک زمانے سے مشغول ہو۔ موسیٰ چاہتا ہے کہ وہ تمہارے جادو کو ختم کر دے جو تمہارا ذریعہ معاش ہے، جس کی وجہ سے تمہیں ریاست ملی ہوئی ہے۔ یہ جادو گروں کی ایک دوسرے کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب آنے کے لئے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ترغیب ہے۔