قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ
جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت، شکل عنایت فرمائی پھر راہ سجھا دی (١)۔
فرمایا : ﴿رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ٰ﴾ یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور ہر مخلوق کو اپنی حسن تخلیق، حسن صنعت اور اس کی ضرورت کے مطابق وجود عطا کیا، مثلاً کسی کو بڑا، کسی کو چھوٹا اور کسی کو متوسط جسم عطا کیا اور یہی حال تمام صفات کا ہے۔ ﴿ ثُمَّ هَدَىٰ﴾ ” پھر اس نے رہنمائی کی۔“ یعنی ہر مخلوق کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس کی طرف اس نے اس کی راہنمائی کی۔ اس ہدایت کامل کا تمام مخلوقات میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہر مخلوق جس منفعت کے لئے تخلیق کی گئی ہے اس کے حصول اور مضرت کے دور کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو بھی عقل عطا کی جس کے ذریعے وہ ان امور کے حصول پر متمکن ہوتے ہیں اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق ہے۔ ﴿الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ﴾ (السجدة:32؍7)” جس نے ہر چیز کو بہترین طریقے سے تخلیق کیا۔“ وہ ہستی جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور انہیں ایسی بہترین تخلیق عطا کی کہ عقل انسانی اس سے زیادہ خوبصورت تخلیق پیش نہیں کرسکتی اور وہ ہستی جس نے تمام مخلوقات میں ان کے مصالح کی طرف راہنمائی ودیعت کی، وہی حقیقت میں رب کائنات ہے۔ اس رب کا انکار، سب سے بڑی چیز کے وجود کا انکار کرنا ہے اور یہ حقیقت کا انکار اور صریح جھوٹ ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ انسان نے بعض ایسے امور کا انکار کیا ہے جو یقینی طور پر معلوم ہیں تو ان کا رب کائنات کا انکار کرنا سب سے بڑا انکار ہے، اس لئے جب فرعون اس قطعی دلیل کا مقابلہ نہ کرسکا تو اصل مقصد سے ہٹ کر جھگڑنے پر اتر آیا ۔