الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ
جو رحمٰن ہے، عرش پر قائم ہے (١)
نیز اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس کے خلاق میں اس کی تدبیر کوفی و قدیر جاری و ساری ہے اور اس کے امر میں دینی و شرعی تدبیر کار فرما ہے۔ پس جیسے اس کی تخلیق اس کی حکمت کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی، اس نے کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی۔ پس اسیر طح اللہ تعالیٰ صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے جو عدل و احاسن پر مبنی ہو اور صرف عدل و احاسن اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہی کسی چیز سے روکتا ہے۔ جب یہ حقیت واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا خالق اور مدبر ہے، وہی حکم دینے والا اور روکنے والا ہے تو اس نے اپنی عظمت اور کبریائی کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ ﴾ ” رحمٰن عرش پر“ جو تمام کائنتا سے بلند، تمام کائنات سے بڑا اور تمام کائنات سے وسیع ہے ﴿اسْتَوَىٰ ﴾ ” مستوی ہے“ یہاں استواء سے مراد وہ استواء ہے جو اس کے جلال کے لائق اور اس کی عظمت و جمال سے مناسبت رکھتا ہے۔ پس وہ عرش پر مستوی اور کائنات پر حاوی ہے۔