سورة مريم - آیت 78

أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا وہ غیب پر مطلع ہے یا اللہ کا کوئی وعدہ لے چکا ہے؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ ان کو توبیخ و تکذیب کے طور پر فرماتا ہے : ﴿أَطَّلَعَ الْغَيْبَ ﴾ ” کیا وہ غیب پر مطلع پر گیا ہے؟“ یعنی کیا اس کے علم نے غیب کا احاطہ کر رکھا ہے حتیٰ کہ اسے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کیا کچھ ہوگا جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قیامت کے روز اسے مال و اولاد سے نوازا جائے گا ﴿ أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَـٰنِ عَهْدًا﴾ ” یا اس نے رحمٰن سے عہد لے رکھا ہے“ کہ وہ ان چیزوں کو حاصل کرے گا جن کا اس نے دعویٰ کیا ہے۔۔۔ یعنی کچھ بھی ایسے نہیں ہوگا۔ تب معلوم ہوا کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کرتا ہے اور ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں اسے خود بھی علم نہیں۔ اس تقسیم اور تردید کی غرض و غایت، الزامی جواب اور مخالف پر حجت قائم کرنا ہے۔ کیونکہ جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے آخرت میں اللہ تعالیٰ کے ہاں بھلائی حاصل ہوگی اسے مندرجہ ذیل امور میں سے ایک ضرور حاصل ہے: (1) یا تو اس کا یہ قول، امور مستقبل کے بارے میں علم غیب سے صادر ہوا مگر ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ وحدہ کو ہے۔ مستقبل میں پیش آنے والے امور کو کوئی نہیں جانتا سوائے اس کے رسولوں میں سے جسے اللہ تعالیٰ مطلع کر دے۔ (2) یا اس نے اللہ تعالیٰ کے ہاں، اپنے ایمان باللہ اور اتباع رسل کے ذریعے سے عہد لے رکھا ہے، جن کے پیروکاروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ آخرت میں نجات یافتہ اور کامیاب لوگ ہوں گے۔ جب ان دونوں امور کی نفی ہوگئی تو معلوم ہوا کہ دعویٰ باطل ہے۔