سورة مريم - آیت 71

وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تم میں سے ہر ایک وہاں ضرور وارد ہونے والا ہے، یہ تیرے پروردگار کے ذمے قطعی، طے شدہ امر ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ خطاب نیک و بد، مومن اور کافر، تمام خلائق کے لئے ہے، خلائق میں کوئی ایسا نہیں ہوگا جو جہنم پر وارد نہ ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حتمی فیصلہ ہے اور اس نے اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے اس کا نفاذ لابدی اور اس کا وقوع حتمی ہے۔ البتہ وارد ہونے کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ تمام مخلوق جہنم میں حاضر ہوگی حتیٰ کہ تمام لوگ گھبرا اٹھیں گے پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کو نجات دے دے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ وارد ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ مگر اہل ایمان پر جہنم کی آگ سلامتی والی اور ٹھنڈی ہوجائے گی۔ بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ ’’وارد ہونے“ سے مراد پل صراط پر سے گزرنا ہے جو جہنم کے اوپر بنا ہوا ہوگا۔ لوگ اپنے اعمال کی مقدار کے مطابق پل پر سے گزریں گے، بعض لوگ پلک جھپکتے گزر جائیں گے، بعض ہوا کی سی تیزی سے گزریں گے، بعض عمدہ گھوڑوں، عمدہ سواریوں کی طرح اور بعض چلتے ہوئے، بعض گھسٹتے ہوئے گزریں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جن کو اچک کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ہر ایک کے ساتھ اس کے تقویٰ کے مطابق معاملہ ہوگا۔