سورة مريم - آیت 26

فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا ۖ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اب چین سے کھا پی اور آنکھیں ٹھنڈی رکھ (١) اگر تجھے کوئی انسان نظر پڑجائے تو کہہ (٢) دینا کہ میں نے اللہ رحمان کے نام کا روزہ رکھا ہے۔ میں آج کسی شخص سے بات نہ کروں گی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَكُلِي ﴾ یعنی کھجوریں کھا ﴿وَاشْرَبِي﴾ ” اور (اس نہر کا) پانی پی۔“ ﴿ وَقَرِّي عَيْنًا﴾ ” اور حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کو دیکھ دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر“۔ یہ زچگی کی تکلیف سے سلامتی اور لذیذ و خوشگوار ماکول و مشروب کی فراہمی کے پہلو سے، حضرت مریم علیہا السلام کے لئے اطمینان تھا۔ رہی لوگوں کی باتیں اور ان کے طعنے، تو فرشتے نے حضرت مریم علیہا السلام کو حکم دیا کہ وہ جب کسی آدمی کو دیکھیں تو اشارے سے اسے بتائیں : ﴿إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَـٰنِ صَوْمًا﴾ ” میں نے نذر مانی ہے رحمٰن کے لئے روزے کی“ یعنی خاموش رہنے کی۔ ﴿فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا ﴾’’پس میں آج بات نہیں کروں گی کسی آدمی سے“ یعنی ان سے بات چیت نہ کرنا، تاکہ تم ان کی باتوں سے بچ سکو۔ ان کے ہاں معروف تھا کہ خاموشی ایک عبادت مشروعہ ہے۔ ان کو اپنی طرف سے اس معاملے کی نفی کے سلسلے میں لوگوں سے گفتگو نہ کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا تھا کہ لوگ اس کو تسلیم نہیں کریں گے اور نہ اس میں کوئی فائدہ ہے، نیز یہ کہ ان کی براءت کا اظہار پنگوڑے کے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے ہونا ان کی براءت کی سب سے بڑی شہادت بن جائے کیونکہ عورت کا شوہر کے بغیر کسی بچے کو جنم دینا اور پھر اس کا یہ دعویٰ کرنا کہ یہ بچہ کسی مرد کے چھوئے بغیر ہے، سب سے بڑا دعویٰ ہے۔ اگر اس دعویٰ کی تائید میں متعدد گواہ بھی موجود ہوں تب بھی اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا، اس لئے اس خارق عادت واقعہ کی تائید کے لئے، اسی جیسا ایک اور خارق عادت واقعہ پیش آیا اور وہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی انتہائی چھوٹی عمر میں کلام کرنا، بناء بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :