سورة الكهف - آیت 107

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی اچھے کئے یقیناً ان کے لئے فردوس (١) کے باغات کی مہمانی ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی جو اپنے دل سے ایمان لائے اور اپنے جوارح سے نیک عمل کئے اور یہ وصف تمام دین، یعنی اس کے عقائد و اعمال اور اس کے ظاہری اور باطنی اصول و فروع سب کو شامل ہے۔ تمام اہل ایمان کو، ان کے ایمان اور اعمال صالحہ کے مراتب کے مطابق، جنت فردوس کے مختلف طبقات عطا ہوں گے۔” جنات الفردوس“ میں اس معنی کا احتمال ہے کہ اس سے مراد جنت کا بلند ترین، بہترین اور افضل درجہ ہو اور یہ ثواب ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کی تکمیل کی اور وہ ہیں انبیائے کرام اور مقربین۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے جنت کی تمام منازل اور اس کے تمام درجے مراد ہوں اور یہ ثواب جنت کے تمام طبقات، یعنی مقربین، ابرار اور متوسطین ان کے حسب حال سب کو شامل ہو اور یہی معنی زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ معنی عام ہے، نیز اس لئے کہ جنت کو جمع کے لفظ کے ساتھ ” فردوس“ کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں فردوس کا اطلاق اس باغ پر ہوتا ہے جو انگور کی بیلوں اور گنجان درختوں پر مشتمل ہو تب یہ لفظ تمام جنت پر صادق آتا ہے۔ پس جنت فردوس ان لوگوں کے لئے مہمانی اور ضیافت کی جگہ ہے جنہوں نے ایمان لانے کے بعد نیک عمل کئے۔ اس ضیافت سے بڑی، زیادہ عظیم اور زیادہ جلیل القدر کون سی ضیافت ہوسکتی ہے جو قلب و روح اور بدن کے لئے ہر نعمت پر مشتمل ہے۔ اس میں ہر وہ نعمت موجود ہے جس کی نفس خواہش کریں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی، مثلاً خوبصورت گھر، سرسبز باغات، پھل دار درخت، سحر انگیز گیت، گاتے ہوئے پرندے، لذیذ ماکولات و مشروبات، خوبصورت بیویاں، خدمت گزار لڑکے، بہتی ہوئی نہریں، دلکش مناظر، حسی اور معنوی حسن و جمال اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں۔ اس سے بھی افضل اور جلیل القدر نعمت، رحمٰن کا تقرب، اس کی رضا کا حصول جو کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دیدار اور رؤف و رحیم کے کلام سے لطف اندوز ہونا۔۔۔. اللہ کی قسم ! یہ ضیافت کتنی جلیل القدر کتنی خوبصورت، ہمیشہ رہنے والی اور کتنی کامل ہوگی۔ یہ ضیافت اس سے بہت بڑی ہے کہ مخلوق میں سے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے، یا دلوں میں اس کے تصور کا گزر ہوسکے۔ اگر بندوں کو ان میں سے کچھ نعمتوں کا حقیقی علم حاصل ہو کر ان کے دلوں میں جاگزیں ہوجائے تو دل شوق سے اڑنے لگیں گے، جدائی کے درد سے روح لخت لخت ہوجائے گی اور بندے اکیلے اکیلے اور گروہ در گروہ اس کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ وہ اس کے مقابلے میں دنیائے فانی اور اس کی ختم ہوجانے والی لذات کو کبھی بھی ترجیح نہیں دیں گے۔ وہ اپنے اوقات کو ضائع نہیں کریں گے کہ یہ اوقات خسارے اور ناکامی کا باعث بنیں کیونکہ اس جنت کا ایک لمحہ دنیا کی ہزاروں سال کی نعمتوں کے برابر ہے۔ مگر حقیقت حال یہ ہے کہ غفلت نے گھیر رکھا ہے، ایمان کمزور پڑگیا اور ارادہ اضمحلال کا شکار ہوگیا ہے، پس اس کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہئے تھا فلا حول ولا قوة الا باللّٰہ العلی العظیم۔