سورة الكهف - آیت 74

فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک (١) لڑکے کو پایا، خضر نے اسے مار ڈالا، موسیٰ نے کہا کہ کیا آپ نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض مار ڈالا ؟ بیشک آپ نے تو بڑی ناپسندیدہ حرکت کی (٢)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا﴾ ” پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک بچے کو ملے“ یعنی چھوٹا سا بچہ ﴿ فَقَتَلَهُ﴾ ” پس (خضر نے) اس کو قتل کر ڈالا“ اس پر موسیٰ علیہ السلام سخت ناراض ہوئے۔ جب خضر نے اس چھوٹے سے بچے کو قتل کردیا جس سے کوئی گناہ صادر نہیں ہوا تو موسیٰ علیہ السلام کی حمیت دینی نے جوش مارا اور کہنے لگے : ﴿أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا ﴾ ” کیا آپ نے ایک ستھری جان بغیر عوض کسی جان کے مار ڈالی، بے شک آپ نے ایک نامعقول کام کیا۔“ چھوٹے سے معصوم بچے کے قتل جیسا برا کام اور کون سا ہوسکتا ہے، جس کا کوئی جرم نہیں اور نہ اس نے کسی کو قتل کیا ہے۔