وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ فَأَعْرَضَ عَنْهَا وَنَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ ۚ إِنَّا جَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۖ وَإِن تَدْعُهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ فَلَن يَهْتَدُوا إِذًا أَبَدًا
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے؟ جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے وہ پھر بھی منہ موڑے رہے اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھا ہے اسے بھول جائے، بیشک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے (نہ) سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے، گو تو انھیں ہدایت کی طرف بلاتا رہے، لیکن یہ کبھی بھی ہدایت نہیں پانے (١) کے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس بندے سے بڑھ کر کوئی ظالم اور اس سے بڑا کوئی مجرم نہیں جسے اللہ تعالیٰ کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے، اس کے سامنے حق اور باطل، ہدایت اور ضلالت کو واضح کردیا گیا ہو، اسے برے انجام سے ڈرایا گیا اور آخرت کے ثواب کی ترغیب دی گئی ہو اور وہ روگردانی کرے، نصیحت نہ پکڑے، اپنے کرتوتوں سے باز نہ آئے اور اپنے ہاتھوں کی کمائی سے انجان بنا رہے اور اللہ علام الغیوب کو اپنے اوپر نگران نہ سمجھے۔ پس یہ اس روگرداں شخص کے ظلم سے بڑا ظالم ہے جس کے پاس اللہ تعالیٰ کی آیات نہیں پہنچیں اور اس کو ان آیات کے ذریعے سے نصیحت نہیں کی گئی۔۔۔ یہ بھی اگرچہ ظالم ہے مگر وہ پہلا شخص اس سے زیادہ بڑا ظالم ہے کیونکہ علم اور بصیرت رکھتے ہوئے گناہ کرنے والا لاعلمی سے گناہ کرنے والے سے زیادہ بڑا گناہ گار ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آیات الٰہی سے اس کے اعراض، اپنے گناہوں کو بھول جانے اور حالت شر پر راضی رہنے کے سبب سے اس کو سزا دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے علم ہے کہ ہدایت کے دروازے اس پر بند ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے قلب پر پردے ڈال دیئے ہیں یعنی مضبوط پردوں نے اس کو آیات الٰہی کے تفقہ سے محروم کر رکھا ہے اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سنتا ہے مگر ان میں ایسا تفقہ حاصل کرنا جو قلب کی گہرائی میں اتر جائے اس کے بس کی بات نہیں۔ ﴿وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا﴾ ” اور ان کے کانوں میں بوجھ ہے“ یعنی ان کے کانوں میں گرانی ہے جو ان کو آیات الٰہی کے فائدہ مند سماع سے محروم کردیتی ہے اور اگر وہ اسی حالت میں رہیں تو ان کی ہدایت کا کوئی راستہ نہیں۔ ﴿وَإِن تَدْعُهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ فَلَن يَهْتَدُوا إِذًا أَبَدًا ﴾” اگر آپ ان کو ہدایت کی طرف بلائیں تو ہرگز ہدایت پر نہ آئیں اس وقت کبھی“ کیونکہ داعی ہدایت کی دعوت پر اسی شخص کے لبیک کہنے کی امید ہوتی ہے جو علم نہیں رکھتا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے آیات الٰہی کو خوب دیکھا، بھالا پھر اندھے پن کا مظاہرہ کیا، انہوں نے راہ حق کو پہچان لیا مگر اسے چھوڑ دیا اور گمراہی کی راہ پر گامزن ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی یہ سزا دی کہ ان کے دلوں پر تالے ڈال دیئے اور ان پر مہر لگا دی۔۔۔ تو ان لوگوں کی ہدایت کا کوئی راستہ اور کوئی حیلہ نہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے تخویف و ترہیب ہے جو حق کو پہچان لینے کے بعد اسے ترک کر دے اور یہ کہ اس کے اور حق کے درمیان رکاوٹ کھڑی کردی جائے اور اس کے بعد اس کے لئے کوئی چیز ایسی نہ رہے جو اس کے حق میں اس سے بڑھ کر ڈرانے والی اور اس غلط روی سے اسے روکنے والی ہو۔