وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا
ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طریقے سے تمام کی تمام مثالیں لوگوں کے لئے بیان کردی ہیں لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ (١)
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید کی عظمت و جلالت اور اس کے عموم کا ذکر کرتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے قرآن کریم میں ہر قسم کی مثال بیان کی ہے یعنی ہر وہ راستہ واضح کردیا ہے جو علوم نافعہ اور سعادت ابدیہ تک پہنچاتا ہے اور ہر اس طریق سے آگاہ فرما دیا ہے جو انسان کو شر اور ہلاکت سے بچاتا ہے۔ پس اس قرآن کریم میں حلال و حرام، جزائے اعمال، ترغیب و ترہیب کی مثالیں ہیں، سچی خبریں ہیں جو اعتقاد، طمانیت اور روشنی کے اعتبار سے دلوں کے لئے فائدہ مند ہیں۔ یہ چیز واجب ٹھہراتی ہے کہ قرآن کریم کو اطاعت و انقیاد اور کسی بھی امر میں عدم منازعت کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔۔۔ مگر اس کے باوجود اکثر لوگ، حق کے واضح ہوجانے کے بعد بھی، باطل دلائل کے ساتھ حق کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ ﴿ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ ﴾(الکھف:18؍56) ”تاکہ حق کو نیچا دکھائیں ۔“بنابریں فرمایا: ﴿ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا﴾ ’’اور ہے انسان سب چیز سے زیادہ جھگڑا لو‘‘ یعنی بہت جھگڑا لو اور بحثیں کرنے والا ہے، حالانکہ یہ اس کے لائق ہے نہ یہ قرین انصاف ہے اور اس کا اللہ پر ایمان نہ لانے کا سبب یہ نہیں کہ اس کو بیان کرنے اور اس کی حجت و برہان کو واضح کرنے میں کوئی کمی رہ گئی ہے بلکہ ظلم و عناد، ان کے اس رویے کا موجب ہے۔ ورنہ اگر ان پر عذاب اور وہ سختیاں اور مصیبتیں آجاتیں جو پہلے لوگوں پر آئی تھیں تو ان کا یہ حال نہ ہوتا، اس لئے فرمایا :