كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
در اصل لوگ ایک ہی گروہ تھے (١) اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے۔ صرف ان ہی لوگوں نے جو اسے دیئے گئے تھے، اپنے پاس دلائل آ چکنے کے بعد آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے اس میں اختلاف کیا (٢) اس لئے اللہ پاک نے ایمان والوں کی اس اختلاف میں بھی حق کی طرف اپنی مشیت سے رہبری کی (٣) اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سیدھی راہ کی طرف رہبری کرتا ہے۔
یعنی وہ سب ہدایت پر جمع تھے اور یہ سلسلہ آدم علیہ السلام کے بعد دس صدیوں تک جاری رہا۔ پھر جب انہوں نے دین میں اختلاف کیا تو ایک گروہ کافر ہوگیا اور دوسرا گروہ دین پر قائم رہا اور ان کے درمیان اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان فیصلے اور ان پر حجت قائم کرنے کے لئے رسول بھیجے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تمام لوگ کفر، ضلالت اور شقاوت پر مجتمع تھے۔ ان کے سامنے کوئی روشنی اور ایمان کی کوئی کرن نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف انبیاء و رسل علیہ السلام بھیج کر ان پر رحم فرمایا ﴿ مُبَشِّرِیْنَ﴾” بشارت دینے والے“ یعنی یہ رسول لوگوں کو خوشخبری سناتے کہ اللہ کی اطاعت کے ثمرات، رزق، قلب و بدن کی قوت اور پاکیزہ زندگی کی صورت میں ہوں گے۔۔۔ اور ان سب سے بڑھ کر وہ کامیابی ہے جو اللہ کی رضا مندی اور جنت کی صورت میں حاصل ہوگی۔ ﴿ وَمُنْذِرِیْنَ ۠﴾ اور اللہ کے نافرمانوں کو معصیت کے نتائج سے ڈراتے ہیں جو دنیا میں رزق سے محرومی، کمزوری، اہانت اور تنگ زندگی کی صورت میں نکلتے ہیں اور آخرت میں ایسے لوگوں کے لئے بدترین عذاب، اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم ہے۔ ﴿ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ﴾” اور ان کے ساتھ کتاب اتاری ساتھ حق کے۔“ اس سے مراد وہ سچی خبریں اور عدل پر مبنی احکام ہیں جنہیں اللہ کے رسول لے کر مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ پس وہ تمام اخبار و احکام جن پر کتب الٰہیہ مشتمل ہیں، حق ہیں اور اصول و فروع میں اختلاف کرنے والوں کے مابین فیصلہ کرتے ہیں اور اختلاف اور تنازع واقع ہونے کی صورت میں فرض ہے کہ اختلاف اور تنازع کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے۔ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول میں ان اختلاف کرنے والوں کے نزاع کا فیصلہ موجود نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے جھگڑوں کو ان کی طرف لوٹا نے کا حکم نہ دیتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب پر کتابیں نازل فرما کر اپنی عظیم نعمت کا ذکر کیا ہے۔ اس نعمت کا تقاضا تھا کہ وہ ان کتابوں پر اتفاق کرتے ہوئے اکٹھے ہوتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ انہوں نے ایک دوسرے پر زیادتی کا ارتکاب کیا جس کے نتیجے میں نزاعات، جھگڑے اور بے شمار اختلافات ظاہر ہوئے، چنانچہ انہوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا جس کے بارے میں ان کے لئے مناسب یہ تھا کہ وہ اس کتاب پر لوگوں میں سے سب سے زیادہ اتفاق کرنے والے ہوتے اور ان کا یہ رویہ آیات بینات اور دلائل قاطعہ کو جان لینے اور ان کی صداقت پر یقین ہوجانے کے بعد تھا۔ پس وہ اپنے اس رویے کی وجہ سے دور کی گمراہی میں جا پڑے۔ ﴿ۚفَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾” پس اللہ نے مومنوں کو راہ دکھا دی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کے اہل ایمان کی راہنمائی فرمائی ﴿ لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ﴾” ان چیزوں میں جن میں انہوں نے اختلاف کیا، حق سے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر اس معاملے میں اہل ایمان کی راہنمائی فرمائی جس میں اہل کتاب اختلافات کا شکار ہو کر حق و صواب سے دور ہٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی حق و صواب کی طرف راہنمائی فرمائی ﴿ بِاِذْنِہٖ ۭ﴾” اپنے حکم سے“ یعنی اپنے اذان اور اپنی رحمت سے حق و صواب کو ان کے لئے آسان کردیا۔ ﴿ وَاللّٰہُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَـقِیْمٍ﴾” اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے“ پس اللہ تعالیٰ نے عدل اور مخلوق پر حجت قائم کرنے کے لئے تمام انسانوں کو صراط مستقیم کی طرف عام دعوت دی ہے۔ تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں ﴿ مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ﴾ (المائدة: 5؍ 19) ” ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے والا اور کوئی ڈرانے والا ہی نہیں آیا“ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت اور لطف و اعانت سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہا ہدایت سے نوازا۔ پس ہدایت سے نوازنا، یہ اس کا فعل و احسان ہے اور ساری مخلوق کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دینا، یہ اس کا عدل اور اس کی حکمت ہے۔