وَيَوْمَ يَقُولُ نَادُوا شُرَكَائِيَ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُم مَّوْبِقًا
اور جس دن وہ فرمائے گا کہ تمہارے خیال میں جو میرے شریک تھے انھیں پکارو! یہ پکاریں گے لیکن ان میں سے کوئی بھی جواب نہ دے گا ہم ان کے درمیان ہلاکت کا سامان کردیں گے (١)۔
جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال بیان کیا جنہوں نے دنیا میں اس کے ساتھ شرک کیا تھا اور ان کے شرک کا پوری طرح ابطال کیا اور مشرک پر جہالت اور سفاہت کا حکم لگایا تو قیامت کے روز ان کے خود ساختہ شریکوں کی معیت میں ان کا جو حال ہوگا وہ بھی بیان کردیا، چنانچہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا : ﴿ نَادُوا شُرَكَائِيَ ﴾ ” پکارو میرے شریکوں کو۔“ یعنی تمہارے اپنے زعم باطل کے مطابق میرے جو شریک ہیں ان سب کو بلا لو۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں یعنی اب ان خود ساختہ شریکوں کو بلا لو تاکہ تمہیں کوئی فائدہ دے سکیں اور تمہیں ان سختیوں سے نجات دلا سکیں۔ ﴿فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ ﴾ ” پس یہ ان کو پکاریں گے مگر وہ ان کو جواب نہ دیں گے۔“ اس لئے کہ اس روز اقتدار اور فیصلے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہوگا کسی ہستی کے پاس ذرہ بھر بھی اختیار نہیں ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو یا کسی اور کو کوئی نفع پہنچا سکے : ﴿وَجَعَلْنَا بَيْنَهُم ﴾ ” اور کردیں گے ہم ان کے درمیان“ یعنی مشرکین اور ان کے شریکوں کے درمیان ﴿ مَّوْبِقًا ﴾ ” ہلاکت کا سامان“ یعنی ہلاکت کا گڑھا ان کے درمیان حائل کردیں گے جو ان کو جدا کر دے گا اور ان کو ایک دوسرے سے دور کر دے گا۔ اس وقت ان کی ایک دوسرے کے ساتھ عداوت ظاہر ہوجائے گی، ان کے خود ساختہ شرکاء ان کا انکار کریں گے اور ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ﴾(الاحقاف:46؍6) ” جب تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔ “