سورة الكهف - آیت 23

وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا میں اسے کل کروں گا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ نہی دیگر نواہی کی مانند ( عام) ہے اگرچہ یہ ایک خاص سبب کی بنا پر ہے اور اس کے مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، مگر اس کا خطاب عام مکلفین کے لیے بھی ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے روک دیا ہے کہ بندہ مومن، مستقبل کے امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کو ملائے بغیر کہے ” میں یہ کام کروں گا“ اور یہ اس لیے کہ اس میں خطرات ہیں، اور وہ ہے مستقبل کے غیبی معاملات کے بارے میں کلام کرنا، جن کے بارے میں بندہ نہیں جانتا کہ وہ ان پر عمل کر سکے گا یا نہیں، یا وہ ہو گا یا نہیں؟ اس طرح کہنے میں فعل کے کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ مستقل طور پر بندے کی طرف لوٹانا ہے، حالانکہ یہ قابل احتراز شے اور ممنوع ہے، کیونکہ مشیت تمام تر اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ فرمایا : ﴿وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللّٰـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴾ (التکویر :81؍29)’’تم نہیں چاہتے مگر جو اللہ جہانوں کا رب چاہتا ہے۔“ اپنے کسی امر میں اللہ کی مشیت کے ذکر کرنے میں اس امر کی آسانی تسہیل، اس میں برکت کا حصول اور بندے کی اپنے رب سے مدد کی طلب ہے۔ علاوہ ازیں بندہ ایک بشر ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ذکر کو بھول جانا ایک لا بدی امر ہے اس لیے اس نے اپنے بندے کو حکم دیا کہ جب اسے یاد آئے وہ استثناء کرلیا کرے ( یعنی ” ان شاء اللہ“ کہہ لیا کرے) تاکہ مطلوبہ و مقصود حاصل ہو اور محزور سے بچا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد