سورة الكهف - آیت 2

قَيِّمًا لِّيُنذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِّن لَّدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بلکہ ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک رکھا تاکہ اپنے (١) پاس کی سخت سزا سے ہوشیار کر دے اور ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبریاں سنادے کہ ان کے لئے بہترین بدلہ ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

استقامت کا اثبات اس بات کا متقضی ہے کہ یہ کتاب جلیل ترین امور کا حکم دیتی اور جلیل ترین خبروں سے اگاہ کرتی ہے اور یہ وہ خبریں ہیں جو قلوب انسانی کو معرفت الہٰی اور ایمان و عقل سے لبریز کردیتی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اس کے افعال کے بارے میں خبریں، نیز گزرے ہوئے اور آئندہ آنے والے غیبی معاملات کی خبریں۔ اس کتاب کی استقامت کا اثبات اس امر کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ اس کے اوامر و نواہی نفوس انسانی کا تزکیہ، ان کی نشو ونما اور ان کی تکمیل کرتے ہیں کیونکہ یہ اوامر و نواہی کامل عدل و انصاف، اخلاص اور اکیلے اللہ رب العالمین کے لیے عبودیت پر مشتمل ہیں۔ یہ کتاب، جس کے مذکورہ بالا اوصاف بیان کیے گئے ہیں، اس بات کی مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے نازل کرنے پر اپنی حمد بیان کرے اور اپنے بندے سے اپنی حمدو ستائش کا مطالبہ کرے۔ ﴿ لِّيُنذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِّن لَّدُنْهُ﴾ ” تاکہ وہ اپنی طرف سے ڈرائے سخت عذاب سے‘‘ یعنی اس شخص کو اپنی اس قضاو قدر سے ڈرائے جو اس کے احکامات کی مخالفت کرنے والوں کے لیے ہے۔ یہ دنیاوی عذاب اور اخروی عذاب دونوں کو شامل ہے، نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو خوف دلایا ہے اور ان کو ان امور سے ڈریا ہے جو ان کے لیے نقصان اور ہلاکت کا باعث ہیں۔ جیسا کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آگ کا وصف بیان کیا تو فرمایا : ﴿ذَٰلِكَ يُخَوِّفُ اللّٰـهُ بِهِ عِبَادَهُ ۚ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ﴾ (الزمر: 39؍16)” اللہ اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اے میرے بندو! پس مجھ سے ڈرو“ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے ان لوگوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کر رکھی ہیں جو ان کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان سزاؤں کو ان کے سامنے بیان کردیا اور ان اسباب کو بھی واضح کردیا جو ان سزاؤں کے موجب ہیں۔ ﴿وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ﴾ ” اور خوشخبری دیجیے مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی، تاکہ اس کے ذریعے سے، نیز اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے، ان لوگوں کو خوشخبری سنائے جو اس کتاب پر ایمان لاکر اپنے ایمان کی تکمیل کرتے ہیں۔ پس اس نے اپنے بندوں پر نیک اعمال واجب کئے اور اس سے مراد واجبات و مستحبات پر مشتمل نیک اعمال ہیں، جن میں اخلاص اور اتباع رسول جمع ہوں۔ ﴿ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا ﴾ ” کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے“ اس سے مراد وہ ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح پر مترتب کیا ہے۔ سب سے بڑا اور جلیل ترین ثواب، اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ہے جس کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے تصور میں اس کا گزر ہوا ہے اور اس اجر کو ” حسن“ کے وصف کے ساتھ موصوف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جنت میں کسی بھی لحاظ سے کوئی تکدر نہ ہوگا۔ کیونکہ اگر اس میں کسی قسم کا تکدر پایا جائے تو یہ اجر مکمل طور پر حسن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کہ یہ اچھا اجر ہے۔