وَمَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ ۖ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا ۖ مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا
اللہ جس کی رہنمائی کرے وہ تو ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ راہ سے بھٹکا دے ناممکن ہے کہ تو اس کا مددگار اس کے سوا کسی اور کو پائے، (١) ایسے لوگوں کا ہم بروز قیامت اوندھے منہ حشر کریں گے (٢) دراں حالیکہ وہ اندھے گونگے اور بہرے ہونگے (٣) ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جب کبھی وہ بجھنے لگے گی ہم ان پر اسے اور بھڑکا دیں گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ ہدیت اور گمراہی صرف اسی کے قبضہء قدرت میں ہے وہ جسے ہدایت سے نوازانا چاہتا ہے تو اسے آسان راہیں میسر کردیتا ہے اور اس کو تنگی سے بچا لیتا ہے اور وہی درحقیقت ہدایت یافتہ ہے اور جسے گمراہ کرتا ہے اسے اس کے نفس کے حوالے کر کے اس سے الگ ہوجاتا ہے تب اللہ تعالیٰ کے سوا اس کو کوئی راہ نہیں دکھا سکتا اور ان کا اس روز کوئی حمایتی نہیں ہوگا جو ان کو اللہ کے عذاب کے مقابلے میں مدد کرسکے جب اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو ان کے چہروں کے بل، نہایت رسوائی کی حالت میں اندھے اور گونگے بنا کر اکٹھے کرے گا وہ دیکھ سکیں گے نہ بول سکیں گے۔ ﴿مَّأْوَاهُمْ ﴾ ” ان کا ٹھکانا“ یعنی ان کی جائے قرار اور ان کا گھر ﴿جَهَنَّمُ ۖ﴾ ” جہنم ہے“ جہاں ہر قسم کا حزن و غم اور عذاب جمع ہے۔ ﴿ كُلَّمَا خَبَتْ ﴾ ” جب وہ بجھنے لگے گی“ ﴿زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا﴾ ” تو ہم ان پر اس آگ کو اور بھڑکا دیں گے۔“ عذاب ان پر سے منقطع نہ ہوگا۔ ان کو موت آئے گی نہ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات کی جزادی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا کرتے تھے اور قیامت کے روز پر ایمان نہیں رکھتے تھے جس کے بارے میں تمام انبیاء و رسل نے آگاہ فرمایا اور تمام آسمانی کتابوں نے اس کے برپا ہونے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اپنے رب کو عاجز قرار دے کر اس کی قدرت کا ملہ کا انکار کردیا۔