سورة البقرة - آیت 205

وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جب وہ لوٹ کرجاتا ہے تو زمین پر فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَاِذَا تَوَلّٰی﴾” اور جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے“ یعنی یہ شخص جب آپ کے پاس موجود ہوتا ہے تو اس کی باتیں آپ کو بہت خوش کن لگتی ہیں، جب وہ آپ کے ہاں سے واپس لوٹتا ہے۔ ﴿ سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْہَا ﴾” تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے، تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے۔“ یعنی وہ گناہ اور نافرمانی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتا ہے جو زمین میں فساد برپا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ﴿ وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۭ﴾” اور کھیتی اور نسل کو نابود کر دے۔“ اور اس سبب سے کھیتیاں، باغات اور مویشی تباہ ہوتے ہیں یا ان میں کمی واقع ہوتی ہے اور گناہوں کے سبب سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ﴾ ” اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا“ اور جب وہ فساد کو پسند نہیں کرتا تو وہ زمین میں فساد پھیلانے والے بندے کو سخت ناپسند کرتا ہے خواہ یہ بندہ اپنی زبان سے بہت اچھی اچھی باتیں ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باتیں جو لوگوں کے منہ سے صادر ہوتی ہیں ان کے صدق یا کذب اور نیکی یا بدی پر اس وقت تک دلالت نہیں کرتیں جب تک اس کا عمل ان باتوں کی تصدیق نہ کر دے۔ یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ گواہوں، حق پرستوں اور باطل پرستوں کے احوال کی تحقیق اور ان کے اعمال اور قرائن احوال میں غور و فکر کے ذریعے سے ان کی پہچان کی جائے، نیز ان کی ملمع سازی اور ان کی پاکی داماں کے دعوؤں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔