سورة الإسراء - آیت 18

مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جس کا ارادہ صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائدہ) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وہ برے حالوں میں دھتکارا ہوا داخل ہوگا (١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے۔ ﴿مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ﴾ ’’جو شخص دنیا کا خواہش مند ہو۔‘‘ یعنی جو کوئی ختم اور زائل ہوجانے والی دنیا چاہتا ہے وہ اس کے لئے عمل اور کوشش کرتا ہے، اس کی ابتدایا انتہا کو فراموش کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ جلدی سے دنیا کے وہ ٹکڑے اور اس کا مال و متاع اسے عطا کردیتا ہے، جسے وہ چاہتا تھا اور اس کا ارادہ رکھتا تھا، جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لوح محفوظ میں لکھ دیا تھا۔ مگر یہ متاع دنیا فائدہ دینے والی ہے نہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ پھر آخرت میں اس کے لئے ﴿جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا﴾ ’’جہنم ہے جس میں وہ داخل ہوگ‘‘ یعنی اس کے عذاب میں ڈالا جائے گا۔ ﴿مَذْمُومًا مَّدْحُورًا ﴾ ’’مذموم اور راندہ ہو کر۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی طرف سے مذمت، رسوائی اور فضیحت کی حالت میں ہوگا، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہت دور ہوگا، اس کے لئے رسوائی اور عذاب کو جمع کردیا جائے گا۔