ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے (١) یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے (٢)
یعنی تمام مخلوق کو، خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر، آپ کی اپنے رب کے سیدھے راستے کی طرف دعوت، علم نافع اور عمل صالح پر مشتمل ہونی چاہئے ﴿بِالْحِكْمَةِ﴾ ” حکمت کے ساتھ“ یعنی ہر ایک کو اس کے حال، اس کی فہم اور اس کے اندر قبولیت اور اطاعت کے مادے کے مطابق دعوت دیجئے۔ حکمت یہ ہے کہ جہل کی بجائے علم کے ذریعے سے دعوت دی جائے اور اس چیز سے ابتدا کی جائے جو سب سے زیادہ اہم، عقل اور فہم کے سبب سے زیادہ قریب ہو اور ایسے نرم طریقے سے دعوت دی جائے کہ اسے کامل طور پر قبول کرلیا جائے۔ اگر حکمت کے ساتھ دی گئی دعوت کے سامنے سر تسلیم خم کر دے تو ٹھیک ورنہ اچھی نصیحت کے ذریعے سے دعوت کی طرف منتقل ہوجائے اور اس سے مراد امرونہی ہے جو ترغیب و ترہیب سے مقرون ہو۔۔۔۔۔ یا تو ان متعدد مصالح کا ذکر کرے جن پر اوامر مشتمل ہیں اور ان متعدد مضرتوں کو بیان کرے جو نواہی میں پنہاں ہیں، یا ان لوگوں کی اللہ کے ہاں تکریم کو بیان کرے جنہوں نے اللہ کے دین کو قائم کیا اور ان لوگوں کی اہانت کا تذکرہ کرے جنہوں نے اللہ کے دین کو قائم نہیں کیا، یا اس دنیاوی اور اخروی ثواب کا ذکر کرے جو اس نے اپنے اطاعت کیش بندوں کے لئے تیار کر رکھا ہے اور اس دنیاوی اور اخروی عذاب کا ذکر کرے جو اس نے نافرمانوں کے لئے تیار کیا ہوا ہے۔ اگر وہ شخص جس کو دعوت دی گئی، یہ سمجھتا ہے کہ اس کا موقف برحق ہے یا داعی باطل کی طرف دعوت دینے والا ہے تو اس کے ساتھ احسن طریقے سے بحث کی جائے۔ یہ ایسا طریقہ ہے جو عقلاً اور نقلاً دعوت کی قبولیت کا زیادہ موجب ہے، مثلاً اس شخص سے ایسے دلائل کے ساتھ بحث کی جائے جن کو وہ خود تسلیم کرتا ہو یہ حصول مقصد کا قریب ترین ذریعہ ہے۔ یہ بحث جھگڑے اور گالی گلوچ تک نہ پہنچے ورنہ مقصد فوت ہوجائے گا اور کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ بحث کا مقصد گو لوگوں کی حق کی طرف راہنمائی کرنا ہے نہ کہ بحث میں جیتنا وغیرہ۔ ﴿إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ﴾ ” آپ کا رب ہی بہتر جانتا ہے اس کو جو بھٹک گیا اس کے راستے سے“ یعنی آپ کا رب اس سبب کو زیادہ جانتا ہے جس نے اسے گمراہی میں مبتلا کیا ہے اور وہ اس کے ان اعمال کو بھی جانتا ہے جو اس کی گمراہی پر مترتب ہوئے ہیں وہ عنقریب ان کو ان اعمال کی جزا دے گا۔ ﴿وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ ” اور وہ ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔“ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت سے نوازا، پھر ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں چن لیا۔