سورة النحل - آیت 8

وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

گھوڑوں کو، خچروں کو گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وہ باعث زینت بھی ہیں۔ (١) اور بھی ایسی بہت سی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں (٢)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ﴾ ” اور گھوڑے، خچر اور گدھے“ یعنی ہم نے ان تمام چوپایوں کو تمہارے قابو میں دے دیا ﴿لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ﴾ ” تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لئے“ یعنی کبھی تو تم انہیں سواری کی ضرورت کے لئے استعمال کرتے ہو اور کبھی خوبصورتی اور زینت کی خاطر تم انہیں پالتے ہو۔ یہاں ان کو کھانے کا ذکر نہیں کیا کیونکہ خچر اور گدھے کا گوشت حرام ہے۔ گھوڑوں کو بھی غالب طور پر کھانے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے برعکس اس کو کھانے کی غرض سے ذبح کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس ڈر سے کہ کہیں ان کی نسل منقطع نہ ہوجائے۔ ورنہ صحیحین میں حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے۔ ﴿وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ” اور پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے“ نزول قرآن کے بعد بہت سی ایسی چیزیں وجود میں آئیں جن پر انسان بحر و بر اور فضا میں سواری کرتے ہیں اور جنہیں وہ اپنے فوائد اور مصالح کے لئے اپنے کام میں لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعیان کے ساتھ ان کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صرف ایسی ہی چیزوں کا ذکر فرماتا ہے جن کو اس کے بندے جانتے ہیں یا جن کی نظیر کو وہ جانتے ہوں اور جس کی نظیر ان کے زمانے میں دنیا میں موجود نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اس کا تذکرہ کرتا تو لوگ اس چیز کو نہ پہچان سکتے اور یہ نہ سمجھ سکتے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ صرف جامع اصول ذکر فرماتا ہے جس میں وہ تمام چیزیں داخل ہیں جنہیں لوگ جانتے ہیں اور جنہیں لوگ نہیں جانتے۔ جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کے بارے میں ان چیزوں کا نام لیا ہے جن کو ہم جانتے ہیں اور جن کی نظیر کا مشاہدہ کرتے ہیں، مثلاً کھجور، انگور اور انار وغیرہ اور جس کی کوئی نظیر ہم نہیں جانتے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا ذکر مجمل طور پر اپنے اس ارشاد میں کیا ہے۔ ﴿فِيهِمَا مِن كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ﴾ (الرحمٰن :55؍52) ” ان میں سب میوے دو دو قسم کے ہوں گے۔“ اسی طرح یہاں بھی صرف انہی سواریوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے ہم متعارف ہیں، مثلاً گھوڑے، خچر، گدھے، اونٹ اور بحری جہاز وغیرہ اور باقی کو اس نے اس قول ﴿وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ میں مجمل رکھا۔