فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی جانبداری یا گناہ کی وصیت کردینے سے ڈرے (١) پس وہ ان میں آپس میں صلح کرا دے تو اس پر گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
جب وصیت کرنے والا پوری کوشش سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی نیت کو جانتا ہے تو اسے اپنی نیت کا ثواب ملتا ہے۔ خواہ اس سے خطاہی کیوں نہ واقع ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے تنبیہ ہے جس کو وصیت کی گئی ہو کہ وہ اس میں تبدیلی سے باز رہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے، اس کے فعل سے وہ باخبر ہے۔ پس اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔ یہ تو تھا وصیت عادلہ کا حکم، رہی وہ وصیت جو ظلم اور گناہ کی بنیاد پر کی گئی ہو، تو وصیت کے وقت جو کوئی وصیت کرنے والے کے پاس موجود ہو اسے چاہئے کہ وہ اسے اس امر کی نصیحت کرے جو بہتر اور زیادہ قرین عدل ہو اور اسے ظلم کرنے سے روکے۔ (الَجنَف) سے مراد بغیر کسی ارادے کے غلطی سے وصیت میں ظلم کا ارتکاب کرنا اور (الاِثْمُ) سے مراد عمداً ظلم کرنا ہے۔ اگر اس نے وصیت کے وقت وصیت کرنے والے کو (غلط وصیت کرنے سے) نہیں روکا، تو اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ان لوگوں کے مابین صلح کروا دے جن کو وصیت کی گئی ہے۔ ان کی باہمی رضامندی اور مصالحت کے ذریعے سے ان کے درمیان عدل و انصاف کا اہتمام کرے اور ان کو وعظ و نصیحت کرے کہ وہ اپنے مرنے والے کی ذمہ داری کو پورا کریں۔ باہمی صلح کروانے والے کا یہ فعل بہت بڑی نیکی ہے اور ان پر کوئی گناہ نہیں جیسے اس شخص کو گناہ ہوتا ہے جو جائز وصیت کو تبدیل کرتا ہے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمام لغزشوں کو معاف کردیتا ہے۔ اس شخص کی غلطیوں سے درگزر کرتا ہے جو توبہ کر کے اس کی طرف لوٹتا ہے، وہ اس شخص کو بھی اپنی مغفرت سے نوازے گا جو اپنی ذات سے صرف نظر کر کے اپنا کچھ حق اپنے بھائی کے لیے چھوڑ دیتا ہے، اس لیے کہ جو نرمی اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ نرمی اختیار کرتا ہے۔ اسی طرح وہ اس مرنے والے کو بھی بخش دینے والا ہے جو اپنی وصیت میں ظلم کا ارتکاب کر گیا ہے، بشرطیکہ اس کے ورثا اس کو بری الذمہ کرنے کی خاطر، اللہ کی رضا کے لیے آپس میں نرمی اور درگزر کا معاملہ اختیار کریں۔ ﴿ رَّحِیْمٌ ﴾یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اس نے اپنے بندوں پر ہر معاملہ اس طرح مشروع کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور نرمی سے معاملہ کریں۔ یہ آیات کریمہ وصیت کی ترغیب پر دلالت کرتی ہیں، نیز اس امر پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ جس شخص کے لیے وصیت کی گئی ہے اس کو بیان کیا جائے اور ان میں اس شخص کے لیے سخت وعید ہے جو جائز وصیت میں تغیر و تبدل کا مرتکب ہوتا ہے اور ظلم پر مبنی وصیت میں اصلاح کرنے کی ترغیب ہے۔