لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ
تب بھی یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کردی گئی ہے بلکہ ہم لوگوں پر جادو کردیا گیا ہے۔ (١)
یعنی اگر ان کے پاس کوئی بڑا سا معجزہ بھی آجائے تو یہ حق کا انکار کردیں گے اور ہرگز ایمان نہیں لائیں گے چنانچہ فرمایا : ﴿وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَابًا مِّنَ السَّمَاءِ﴾ ” اگر کھول دیں ہم ان پر دروازہ آسمان سے“ اور وہ خود اس دروازے کا عیاں طور پر مشاہدہ کرلیں اس دروازے میں سے اوپر چڑھ بھی جائیں تب بھی وہ اپنے ظلم و عناد کی بنا پر اس معجزے کا انکار کرتے ہوئے کہیں گے ﴿إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا﴾ ” باندھ دیا گیا ہے ہماری نگاہوں کو“ یعنی ہماری آنکھوں پر نشے کا پردہ آگیا، حتی کہ ہم نے وہ کچھ دیکھا جو ہم دیکھ نہ سکتے تھے۔ ﴿بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ﴾ ”بلکہ ہم لوگوں پر جادو کردیا گیا ہے“ یعنی یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ جادو ہے اور جو قوم ان کی اس حالت کو پہنچ جائے، تو ان لوگوں میں اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کا ذکر فرمایا جو انبیاء و رسل کے لائے ہوئے حق پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ فرمایا :