وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
جس وقت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے وہ احسانات یاد کرو جو اس نے تم پر کئے ہیں، جبکہ اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بڑے دکھ پہنچاتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی (١)
ایام الٰہی سے اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل قدرت، بے پایاں احسان اور اپنے کامل عدل و حکمت پر استدلال کیا ہے۔ اس لئے موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم کی میل لی اور ان کو اللہ کی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے فرمایا : ﴿اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ﴾ ” اللہ نے تم پر جو انعامات کئے ہیں ان کو یاد کرو۔“ یعنی اپنے دل اور زبان سے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو۔ ﴿إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ﴾ ” جب اس نے تمہیں فرعونیوں سے بچایا، وہ چکھاتے تھے تمہیں“ یعنی تمہیں عذاب دیتے تھے ﴿سُوءَ الْعَذَابِ﴾ ” برے عذاب“ یعنی سخت ترین عذاب، پھر اس عذاب کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ﴾ ” اور وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کردیتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے“ یعنی وہ تمہاری عورتوں کو قتل نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو زندہ رکھتے تھے ﴿ وَفِي ذَٰلِكُم﴾ ” اور اس میں“ یعنی اس نجات میں ﴿ بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ﴾ ” تمہارے رب کی طرف سے عظیم نعمت تھی۔“ یعنی عظیم نعمت تھی یا (اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ) اس عذاب میں جس میں تمہیں فرعون اور اس کے سرداروں نے مبتلا کیا تھا، تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی تاکہ وہ دیکھے کہ آیا تم اس سے عبرت حاصل کرتے ہو یا نہیں۔