سورة ابراھیم - آیت 3

الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی کو پسند رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھ پن پیدا کرنا چاہتے ہیں (١) یہی لوگ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں (٢)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ نے ان کفار کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ﴾ ” وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں آخرت پر“ پس وہ دنیا پر راضی اور مطمئن ہو کر آخرت سے غافل ہوگئے۔ ﴿وَيَصُدُّونَ﴾ ” اور (لوگوں کو)روکتے ہیں“ ﴿عَن سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ” اللہ کے راستے سے“ وہ راستہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اور اسے اپنی کتابوں میں اور اپنے رسولوں کی زبان پر خوب بیان کردیا ہے مگر یہ لوگ اپنے آقا و مولا کے مقابلے میں عداوت و محاربت کا اظہار کرتے ہیں ﴿وَيَبْغُونَهَا﴾ ” اور تلاش کرتے ہیں اس میں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں ﴿عِوَجًا ۚ﴾ ” کجی“ یعنی وہ اس راستے کو خراب کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنی روشنی کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ﴾ یعنی وہ لوگ جن کا وصف بیان کیا گیا ہے،﴿ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ﴾ ” دور کی گمراہی میں ہیں۔“ کیونکہ وہ خود گمراہ ہوئے، لوگوں کو گمراہ کیا، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جنگ کی۔ پس اس سے بڑھ کر اور کون سی گمراہی ہے؟ لیکن اہل ایمان کا معاملہ اس کے برعکس ہے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں، دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں، وہ لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف دعوت دیتے ہیں، وہ امکان بھر اس راستے کو خوبصورت بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ سیدھا رہے۔