وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ
ان سے کیے ہوئے وعدوں میں سے کوئی اگر ہم آپ کو دکھا دیں یا آپ کو ہم فوت کرلیں تو آپ پر تو صرف پہنچا دینا ہی ہے۔ حساب تو ہمارے ہی ذمہ ہی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ کفار کو جس عذاب کی وعید سنائی گئی ہے آپ اس کے بارے میں جلدی نہ کریں۔ اگر وہ اپنی سرکشی اور کفر پر جمے رہے تو وہ عذاب ان کو ضرور آئے گا جس کی ان کو وعید سنائی گئی ہے۔ ﴿ وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ ﴾ ”اگر دکھلا دیں ہم آپ کو“ یعنی ان کو عذاب دیا جانا ہم آپ کو دنیا ہی میں دکھادیں جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ یہ نزول عذاب اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف اور اس کی حمدو ثنا پر مبنی ہے کوئی اس میں نقص اور خامی تلاش نہیں کرسکتا اور نہ اس میں جرح و قدح کی کوئی گنجائش ہے۔ ﴿أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ﴾ ” یا آپ کو اٹھالیں“ یعنی ان پر نزول عذاب سے قبل اگر ہم آپ کو وفات دے دیں پس آپ اس میں مشغول نہ ہوں۔ ﴿فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ﴾ ” آپ کے ذمہ تو پہنچا دینا ہے۔“ اور مخلوق کے سامنے بیان کردینا ہے ﴿ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ﴾ ” اور حساب لینا ہمارے ذمے ہے۔“ ہم مخلوق سے ان کی ذمہ داریوں کا حساب لیں گے کہ انہوں نے ان کو پورا کیا ہے یا ضائع کیا ہے۔ پھر ہم انہیں ثواب سے نوازیں گے یا عذاب میں مبتلا کریں گے۔