وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ
ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا (١) کسی رسول سے نہیں ہوسکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے (٢) ہر مقررہ وعدے کی ایک لکھت ہے (٣)
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے رسول نہیں ہیں، جن کو لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، کہ یہ لوگ آپ کی رسالت کو کوئی انوکھی چیز سمجھیں۔ فرمایا : ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً﴾ ” اور آپ سے پہلے ہم نے کئی رسول بھیجے اور دیں ہم نے ان کو بیویاں اور اولاد“ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن اس وجہ سے آپ کی عیب چینی نہ کریں کہ آپ کے بیوی بچے ہیں۔ آپ کے بھائی دیگر انبیاء و مرسلین کے بھی بیوی بچے تھے۔ تب وہ آپ میں کس بات پر جرح و قدح کرتے ہیں؟ حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ سے قبل انبیاء ورسل بھی اسی طرح تھے۔ ان کی یہ عیب چینی اپنی اغراض فاسدہ اور خواہشات نفس کی خاطر ہے۔۔۔ اگر وہ آپ سے کوئی معجزہ طلب کرتے ہیں تو اپنی خواہش کے مطابق مطالبہ کرتے ہیں۔ آپ کو کسی چیز کا بھی اختیار نہیں۔ ﴿وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ﴾ ” اور کسی رسول سے یہ نہیں ہوا کہ وہ لے آئے کوئی نشانی، مگر اللہ کے حکم سے“ اور اللہ تعالیٰ معجزے دکھانے کی تب اجازت دیتا ہے جب اس کی قضا و قدر کے مطابق مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے۔ ﴿لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ﴾ ” ہر ایک وعدہ لکھا ہوا ہے۔“ اور یہ مقرر کیا ہوا وقت آگے بڑھ سکتا ہے نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے، لہٰذا ان کا آیات و معجزات اور عذاب کے مطالبے میں جلدی مچانا اس بات کا موجب نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرر کردہ وقت کو آگے کردے جس کو اس نے اپنی تقدیر میں موخر کررکھا ہے۔ بایں ہمہ کہ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔