الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے (١)
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کی علامت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّـهِ ﴾ ” وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کا قلق اور اضطراب دور ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ فرحت اور لذت آجاتی ہے۔ فرمایا : ﴿أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴾ ” سنو ! اللہ کے ذکر ہی سے دل چین پاتے ہیں۔“ دلوں کے لائق اور سزا وار بھی یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا کسی چیز سے مطمئن نہ ہوں کیونکہ دلوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے انس اور اس کی معرفت سے بڑھ کر کوئی چیز لذیذ اور شیریں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور محبت کی مقدار کے مطابق دل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اس قول کے مطابق یہاں ذکر سے مراد بندے کا اپنے رب کا ذکر کرنا ہے مثلاً تسبیح اور تکبیر و تہلیل وغیرہ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد کتاب اللہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی یاد دہانی کے لئے نازل فرمائی ہے۔ تب ذکر الہٰی کے ذریعے سے اطمینان قلب کے معنی یہ ہوں گے کہ دل جب قرآن کے معانی اور اس کے احکام کی معرفت حاصل کرلیتے ہیں تو اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کے معانی حق مبین پر دلالت کرتے ہیں اور دلائل و براہین سے ان کی تائید ہوتی ہے اور اس پر دل مطمئن ہوتے ہیں کیونکہ علم اور یقین کے بغیر دلوں کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا اور کتاب اللہ کامل ترین وجوہ کے ساتھ علم اور یقین کو متضمن ہے۔ کتاب اللہ کے سوا دیگر کتب علم و یقین کی طرف راجع نہیں ہوتیں، اس لئے دل ان پر مطمئن نہیں ہوتے، بلکہ اس کے برعکس وہ دلائل کے تعارض اور احکام کے تضاد کی بنا پر ہمیشہ قلق کا شکار رہتے ہیں ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴾ )النساء : 4؍ 82( ” اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔“ اور یہ چیز کتاب اللہ کی دی ہوئی خبر، کتاب اللہ میں تدبیر اور دیگر مختلف علوم میں غوروفکر سے واضح ہوجاتی ہے پس (طالب حق) ان کتب علوم اور کتاب اللہ کے درمیان بہت بڑا فرق پائے گا۔