سورة البقرة - آیت 166

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہوجائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور کل رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اور راہنما اپنے پیروکاروں سے برأت کا اظہار کریں گے اور وہ تمام تعلقات منقطع ہوجائیں گے جو دنیا میں ان کے مابین تھے، کیونکہ یہ تعلقات غیر اللہ کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف تھے، ان کا تعلق باطل کے ساتھ تھا جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی اس لیے ان کے تمام اعمال مضمحل اور ان کے تمام احوال نابود ہوجائیں گے اور ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہ جھوٹے تھے اور ان کے وہ اعمال جن کے نفع مند اور نتیجہ خیز ہونے کی انہیں امید تھی، ان کے لیے حسرت اور ندامت میں بدل جائیں گے۔ وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل ہوں گے اور وہاں سے کبھی نہیں نکلیں گے۔ پس اس خسارے کے بعد بھی کوئی اور خسارہ ہے؟ یہ اس لیے کہ انہوں نے باطل کی پیروی کی، انہوں نے ان سے امیدیں رکھیں جن پر امید نہیں رکھی جانی چاہئے تھی اور ان سے تعلق قائم کیا جن سے تعلق قائم نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ پس جب وہی باطل ثابت ہوا، جن سے انہوں نے تعلق جوڑا، تو ان کے اعمال بھی باطل ہوگئے اور جب ان کے اعمال باطل ہوگئے تو اپنی امیدوں کے ٹوٹ جانے کی بنا پر حسرت میں پڑگئے، پس ان کے اعمال نے انہیں سخت نقصان پہنچایا۔ اور یہ اس شخص کے حال کے برعکس ہے جس نے اللہ تعالیٰ سے، جو بادشاہ حقیقی اور واضح کرنے والا ہے، ناطہ جوڑا۔ اسی کے لیے اپنے عمل کو خالص کیا اور اس عمل پر نفع کی امید رکھی۔ پس یہی وہ شخص ہے جس نے حق کو اس کے مقام پر رکھا، اس کے اعمال بھی حق ثابت ہوئے، کیونکہ اس نے حق کے ساتھ تعلق جوڑا تھا اور اپنے اعمال کے نتیجے میں کامیاب ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کا بدلہ پائے گا، جو کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ ذَٰلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِن رَّبِّهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّـهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ  ﴾(محمد : 47؍ 1۔3) ” وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال برباد کردئیے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور اس کتاب پر ایمان لائے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کی گئی اور وہ (کتاب) ان کے رب کی طرف سے برحق ہے، اللہ ان کے گناہ مٹا دے گا اور ان کا حال درست کر دے گا، یہ اس وجہ سے ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے باطل کی پیروی کی اور جو ایمان لائے، انہوں نے اپنے رب کی طرف سے آئے ہوئے حق کی پیروی کی، اللہ اسی طرح لوگوں کے سامنے ان کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ “ اور اس وقت (غلط کاروں کی) پیروی کرنے والے تمنا کریں گے کہ کاش انہیں دنیا میں لوٹایا جائے تو وہ بھی اپنے لیڈروں اور راہنماؤں سے بایں طور پر برأت کا اظہار کردیں کہ شرک چھوڑ دیں گے اور صرف اللہ کے لیے عمل کریں گے، یہ بہت دور اور ناممکن ہے۔ معاملہ ہاتھ سے نکل گیا، اب یہ مہلت دینے کا وقت نہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیت ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اگر انہیں دنیا میں بھیج بھی دیا گیا تو وہ وہی کریں گے جس سے انہیں روکا گیا ہے۔ یہ تو محض ان کے منہ کی بات ہے اور یہ تو محض ان کی تمنائیں ہیں چونکہ ان کے راہنماؤں نے ان سے برأت کا اظہار کیا ہے اس لیے وہ ان پر شدید غصے کی بنا پر اس تمنا کا اظہار کر رہے ہیں ورنہ گناہ تو خود انہی کا ہے۔ پس بدی کے میدان میں تمام راہنماؤں کا راہنما تو شیطان ہے، اس کے باوجود وہ اپنے پیروکاروں سے کہے گا : ﴿  لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ﴾ (ابراہیم:22؍24)” جب یہ معاملہ پورا ہوچکے گا (تو شیطان کہے گا) اللہ تعالیٰ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ وعدہ سچا تھا اور جو وعدہ میں نے تمہارے ساتھ کیا تھا وہ جھوٹا تھا اور مجھے تم پر کسی قسم کا اختیار نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (بدی کی طرف) دعوت دی اور تم نے قبول کرلی۔ پس اب تم مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ “