سورة الرعد - آیت 6

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جو تجھ سے (سزا کی طلبی میں) جلدی کر رہے ہیں راحت سے پہلے ہی، یقیناً ان سے پہلے سزائیں (بطور مثال) گزر چکی ہیں (١) اور بیشک تیرا رب البتہ بخشنے والا ہے لوگوں کے بے جا ظلم پر (٢) اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا بھی ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والے مشرکین کی جہالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ جن کو نصیحت کی گئی مگر انہوں نے نصیحت حاصل نہ کی۔ ان پر دلائل قائم کئے گئے مگر انہوں نے ان دلائل کو نہ مانا، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے کھلم کھلا انکار کیا انہوں نے اللہ واحد و قہار کے حلم اور ان کے گناہوں پر فوری طور پر گرفت نہ ہونے کی وجہ سے استدلال کیا کہ وہ حق پر ہیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہنا شروع کردیا کہ وہ جلدی سے عذاب لے آئیں اور ان میں سے بعض تو یہاں تک کہہ دیتے : ﴿ اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ  ﴾(الانفال:8؍32) ” اے اللہ ! اگر یہ واقعی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب لے آ۔ “ ﴿وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ﴾ ” اور گزر چکی ہیں ان سے پہلے مثالیں“ اور حال یہ ہے کہ جھٹلانے والی قوموں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نازل ہونے کے واقعات گزر چکے ہیں کیا وہ اپنے حال پر غور و فکر کر کے اپنی جہالت کو چھوڑ نہیں سکتے؟ ﴿وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ ﴾ ” اور آپ کا رب لوگوں کو ان کے ظلم کے باوجود معاف کرنے والا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی بھلائی، اس کا احسان، اس کا کرم اور اس کا عفو و در گزر اس کے بندوں پر ہمیشہ نازل ہوتا رہتا ہے اور بندوں کی طرف سے ان کا شرک و عصیان اس کی طرف بلند ہوتا ہے، اس کے بندے اس کی نافرمانی کرتے ہیں وہ ان کو اپنے دروازے کی طرف بلاتا ہے، وہ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں مگر وہ انہیں اپنے فضل و احسان سے محروم نہیں کرتا۔ پس اگر وہ توبہ کرلیں تو وہ ان کا دوست ہے، کیونکہ وہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے بہت محبت کرتا ہے۔ اگر وہ توبہ نہ کریں تو وہ ان کا طبیب ہے، وہ ان کو مصائب میں مبتلا کرتا ہے، تاکہ وہ ان کو گناہوں سے پاک کر دے۔ وہ کہتا ہے : ﴿ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴾ (الزمر:39؍53)” کہہ دیجیے ! اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ ﴿وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ ” بے شک آپ کا رب سخت عذاب دینے والا ہے۔“ ان لوگوں کو جو اپنے گناہوں پر مصر رہتے ہیں، جو اللہ غالب اور بخشنے والے کے پاس توبہ، استغفار اور التجا کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ پس بندوں کو اللہ تعالیٰ کی ان سزاؤں سے ڈرنا چاہئے جو وہ اہل جرائم کو دیتا ہے، اس کی پکڑ نہایت سخت اور درد ناک ہے۔