سورة یوسف - آیت 110

حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہاں تک کہ جب رسول ناامید ہونے لگے (١) اور وہ (قوم کے لوگ) خیال کرنے لگے کہ انھیں جھوٹا کہا گیا (٢) فوراً ہی ہماری مدد ان کے پاس آپہنچی (٣) جسے ہم نے چاہا اسے نجات دی گئی (٤) بات یہ ہے کہ ہمارا عذاب گناہ گاروں سے واپس نہیں کیا جاتا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ انبیاء کرام کو مبعوث فرماتا ہے ان کی قوم کے مجرم اور لئیم لوگ انہیں جھٹلا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو مہلت دیتا ہے کہ وہ حق کی طرف لوٹ آئیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت پر مہلت دئیے چلا جاتا ہے یہاں تک کہ انبیاء کرام پر ان کی سختیاں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اور انبیاء و مرسلین یقین کامل اور اللہ تعالیٰ کے وعد و وعید کی تصدیق کے باوجود کبھی کبھی ان کے دل میں مایوسی کا کوئی خیال سا گزرتا ہے اور ان کے علم اور یقین میں ایک قسم کا ضعف سا آجاتا ہے۔ جب معاملہ اس حال کو پہنچ جاتا ہے ﴿جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ﴾ ” تو ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی، پس جن کو ہم نے چاہا، نجات دے دی گئی“ اس سے مراد انبیاء و رسل اور ان کے متبعین ہیں۔ ﴿وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ﴾ ” اور ہمارا عذاب مجرموں سے پھر انہیں کرتا۔“ یعنی ہمارے عذاب کو مجرموں اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں جرات کرنے والے پر سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی کوئی پیش چل سکے گی نہ ان کی کوئی مدد کرسکے گا۔