وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ
تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں (١) وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے اور وہ سب سے زیادہ سچا ہے، فرماتا ہے، وہ ﴿ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ﴾” ایک ہی الٰہ ہے۔“ یعنی وہ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور اپنے افعال میں اکیلا اور متفرد ہے۔ پس اس کی ذات میں اس کا کوئی شریک ہے نہ اس کا کوئی ہم نام اور نہ ہمسر، نہ اس کی کوئی مثال اور نہ اس کی کوئی نظیر ہے۔ اس کے سوا کوئی کائنات کو پیدا کرنے والا ہے اور نہ اس کی تدبیر کرنے والا۔ جب حقیقت حال یہ ہے تو اس بات کا صرف وہی مستحق ہے کہ ہر قسم کی عبادت صرف اسی کے لیے ہو اور اس کی مخلوق میں سے کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ ﴿الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾ کیونکہ وہ رحمان و رحیم ہے، یعنی وہ بے پایاں رحمت سے متصف ہے کسی اور کی رحمت اس سے مماثلت نہیں رکھتی۔ اس کی بے پایاں رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس کی رحمت ہر زندہ چیز کے لیے عام ہے۔ اس کی رحمت ہی کے باعث تمام کائنات وجود میں آئی۔ اس کی رحمت ہی کی وجہ سے تمام مخلوقات کو تمام کمالات حاصل ہوئے۔ اس کی رحمت ہی کی بنا پر ان سے ہر قسم کی ناراضی دور ہوئی۔ یہ اس کی رحمت ہی ہے کہ اس کے بندوں نے اس کی صفات اور اس کی نعمتوں کے ساتھ اسے پہچان لیا اور اس نے اپنے رسول بھیج کر اور اپنی کتابیں نازل کر کے دنی و دنیا کے تمام مصالح جن کے وہ محتاج تھے، ان پر واضح کردیئے۔ جب یہ معلوم ہوگیا کہ بندوں کو جو بھی نعمت عطا ہوئی ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، نیز یہ کہ مخلوق میں سے کوئی شخص دوسرے کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ تو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ہر قسم کی عبادت کا صرف وہی مستحق ہے اور صرف وہی ہے جو محبت، خوف ورجا، تعظیم و توکل اور دیگر ہر قسم کی اطاعت کا مستحق ہے۔ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑھ کر برائی یہ ہے کہ اس کی عبادت سے منہ موڑ کر اس کے بندوں کی عبادت کی جائے۔ مٹی سے پیدا کی گئی مخلوق کو رب ارباب کا شریک ٹھہرایا جائے، یا تدبیر میں محتاج اور ہر لحاظ سے عاجز مخلوق کی اس خالق کائنات کے ساتھ عبادت کی جائے جو تدبیر کنندہ، قادر اور طاقتور ہے، جو ہر چیز پر غالب ہے اور ہر چیز اس کی مطیع ہے۔ اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت کا اثبات ہے اور اس بات کا بھی کہ مخلوقات میں سے کوئی بھی الوہیت کا مستحق نہیں اور اس توحید الوہیت پر اصل دلیل کا بیان ہے اور وہ اس کی رحمت کا اثبات ہے جس کے آثار میں سے تمام نعمتوں کا وجود اور تمام مصائب کا دور ہونا ہے۔ پس یہ اس کی وحدانیت کی ایک اجمالی دلیل ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اس کے تفصیلی دلائل ذکر فرماتا ہے۔ فرمایا :