قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
(یعقوب علیہ السلام) نے کہا یہ تو نہیں، بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنا لی (١) پس اب صبر ہی بہتر ہے۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو میرے پاس ہی پہنچا دے (٢) وہی علم و حکمت والا ہے۔
جب وہ اپنے باپ کے پاس واپس پہنچے اور انہیں ان واقعات سے آگاہ کیا تو یعقوب علیہ السلام بہت غم زدہ ہوئے اور ان کی اداسی کئی گنا بڑھ گئی۔ پہلے کی طرح اس واقعہ میں بھی حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کو متہم قرار دیا ﴿قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ﴾ ” (اور) کہا بلکہ بنا لی ہے تمہارے جی نے ایک بات، پس اب صبر ہی بہتر ہے“ یعنی میں اس معاملے میں صبر جمیل کی پناہ لیتا ہوں جس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ناراضی ہے نہ بے صبری کا مظاہرہ اور نہ مخلوق کے پاس شکوہ۔ اور جب انہوں نے دیکھا کہ غم و کرب بہت شدید ہوگیا تو انہوں نے سکون کا سہارا لینے کے لئے کہا : ﴿عَسَى اللَّـهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا﴾ ” شاید اللہ لے آئے میرے پاس ان سب کو“ یعنی یوسف علیہ السلام، بنیامین اور سب سے بڑا بھائی، جو مصر میں رہ پڑا تھا۔ ﴿ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ﴾ ” بے شک وہ جاننے والا ہے“ جو میرے حال کو جانتا ہے، جو یہ بھی جانتا ہے کہ میں اس کی طرف سے کشادگی اور نوازش کا محتاج اور اس کے احسان کا ضرورت مند ہوں۔ ﴿الْحَكِيمُ﴾ ”وہ دانا ہے“۔ جس نے اپنی حکمت ربانی کے تقاضے کے مطابق ہر چیز کا اندازہ اور اس کا منتہا مقرر کیا ہے۔