قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
انہوں نے کہا اے عزیز مصر! (١) اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو لے لیجئے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس ہیں (٢)۔
پھر انہوں نے یوسف علیہ السلام کی خوشامد شروع کردی کہ وہ ان کے بھائی کے بارے میں نرمی سے کام لیں، پس ﴿قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا ﴾ ” انہوں نے کہا، اے عزیز ! اس کا باپ بوڑھا ہے، بڑی عمر کا“ یعنی وہ اس کی جدائی پر صبر نہیں کرسکے گا، اس کی جدائی پر اس پر بہت شاق گزرے گی۔ ﴿فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ ” پس اس کی جگہ ہم میں سے کسی ایک کو رکھ لے، یقیناً ہم تجھے احسان کرنے والا دیکھتے ہیں“ پس ہم پر اور ہمارے باپ پر احسان کیجیے۔