فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ
اس نے جب ان کی اس فریب پر غیبت کا حال سنا تو انھیں بلوا بھیجا (١) اور ان کے لئے ایک مجلس مرتب کی (٢) اور ان میں سے ہر ایک کو چھری دی۔ اور کہا اے یوسف ان کے سامنے چلے آؤ (٣) ان عورتوں نے جب اسے دیکھا تو بہت بڑا جانا اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے (٤) اور زبانوں سے نکل گیا کہ ما شاء اللہ! یہ انسان تو ہرگز نہیں، یہ تو یقیناً کوئی بہت ہی بزرگ فرشتہ ہے۔
چنانچہ فرمایا : ﴿فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ﴾” جب اس نے ان کا فریب سنا تو ان کو بولا بھیجا“ ان کو اپنے گھر ایک ضیافت پر بلایا ﴿وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً ﴾ ” اور ان کے لئے ایک مجلس تیار کی“ ان کے لئے ایک ایسی جگہ تیار کی جہاں مختلف اقسام کے فرش بچھے ہوئے تھے جن پر تکئے لگے ہوئے تھے اور کھانے سجے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں اس ضیافت میں عزیز مصر کی بیوی نے کچھ ایسے کھانے بھی پیش کئے جن میں چھری کے استعمال کی ضرورت پڑتی ہے، مثلاً لیموں وغیرہ﴿وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا ﴾” اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں چھری دی“ تاکہ اس چھری سے وہ مخصوص کھانا کاٹ سکیں﴿ وَقَالَتِ﴾ اوریوسف علیہ السلام سے بولی : ﴿اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ﴾” ان کے سامنے نکل آؤ“ اپنے پورے جمال اور رعنائیوں کے ساتھ ان عورتوں کے سامنے آؤ۔ ﴿فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ﴾ ” پس جب انہوں نے اسے دیکھا تو اسے بہت بڑا سمجھا“ یعنی اپنے دل میں اسے بہت بڑا سمجھا اور انہیں ایک نہایت عمدہ اور سحر انگیز منظر نظر آیا کہ اس سے پہلے انہوں نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ﴿وَقَطَّعْنَ ﴾ ” اور کاٹ لئے انہوں نے“ یعنی تحیر اور مدہوشی میں﴿أَيْدِيَهُنَّ ﴾ ” اپنے ہاتھ“ ان چھریوں سے جو ان کے پاس تھیں اپنے ہاتھ کاٹ لئے۔ ﴿وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّـهِ ﴾” اور کہنے لگیں اللہ تعالیٰ پاک ہے۔“ ﴿ مَا هَـٰذَا بَشَرًا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ ﴾ ”یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے“ اس کی وجہ یہ تھی کہ جناب یوسف کو بے پناہ حسن و جمال، نورانیت اور مردانہ وجاہت عطا کی گئی تھی جو دیکھنے والوں کے لئے ایک نشانی اور غور کرنے والوں کے لئے عبرت تھی۔