فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
پھر جب اسے لے چلے اور سب نے ملکر ٹھان لیا اسے غیر آباد گہرے کنوئیں کی تہ میں پھینک دیں، ہم نے یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ یقیناً (وقت آرہا ہے کہ) تو انھیں اس ماجرا کی خبر اس حال میں دے گا کہ وہ جانتے ہی نہ ہوں (١)
یعنی جب وہ باپ کی اجازت کے بعد یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے گئے اور انہوں نے اپنے میں سے ایک کی رائے کے مطابق، جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے، یوسف علیہ السلام کو اندھے کنوئیں میں پھینکنے کا عزم کرلیا اور اب وہ اپنے فیصلے پر عمل کرنے کی قدرت رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے اپنے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے یوسف علیہ السلام کو اندھے کنوئیں میں پھینک دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب یوسف علیہ السلام کو جو کہ اس وقت سخت خوف کی حالت میں تھے اپنے لطف و کرم سے نوازتے ہوئے ان کی طرف وحی کی﴿ لَتُنَبِّئَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ھٰذَا وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ﴾ ’’کہ تو جتائے گا ان کو ان کا یہ کام اور وہ تجھ کو نہ جانیں گے۔‘‘ یعنی آپ عنقریب اس معاملے میں ان پر عتاب کریں گے اور ان کو اس بارے میں آگاہ کریں گے اور انہیں اس معاملے کا شعور تک نہ ہوگا۔ اس میں جناب یوسف علیہ السلام کے لیے بشارت تھی کہ وہ اس مصیبت سے ضرور نجات پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس حالت میں ان کو اپنے گھر والوں کے ساتھ اکٹھا کرے گا کہ عزت اور ملک کا اقتدار ان کے پاس ہوگا۔