سورة ھود - آیت 78

وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ۚ قَالَ يَا قَوْمِ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آپہنچی، وہ تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی (١) لوط نے کہا اے قوم کے لوگو! یہ میری بیٹیاں جو تمہارے لئے بہت ہی پاکیزہ ہیں (٢) اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں (٣)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ  ﴾ ” اور ان کی قوم کے لوگ ان کے پاس بے تحاشا دوڑتے ہوئے آئے۔“ یعنی ان کی قوم کے لوگ بھاگے بھاگے آئے وہ لوط علیہ السلام کے مہمانوں کے ساتھ بدکاری کرنا چاہتے تھے جیسے وہ پہلے سے کرتے آئے ہیں، جیسے اللہ کا فرمان ہے : ﴿وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ﴾ ” اور یہ لوگ پہلے ہی سے فعل شنیع (بدکاری) کیا کرتے تھے۔“ یعنی ایسی بدکاری جو اس سے پہلے دنیا میں کسی نے نہ کی تھی۔ ﴿ قَالَ يَا قَوْمِ هَـٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ﴾ ” انہوں نے کہا، اے میری قوم ! یہ جو میری لڑکیاں ہیں تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہیں۔“ یعنی میری بیٹیاں تمہارے لئے میرے مہمانوں سے زیادہ پاک ہیں۔ جناب لوط علیہ السلام کا یہ قول اسی طرح ہے۔ جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام نے تحقیق حق کی خاطر ان دونوں عورتوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ متنازع فیہ بچے کو دو ٹکڑوں میں برابر کاٹ کر دونوں میں تقسیم کردیا جائے، کیونکہ انہیں علم تھا کہ ان کی بیٹیاں ان کا مقصد نہ تھیں اور نہ ان میں ان کا کوئی حق تھا۔ اس سے جناب لوط علیہ السلام کا سب سے بڑا مقصد اس بڑی بد کاری کو روکنا تھا۔ ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ﴾ ” پس اللہ سے ڈر و اور میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے رسوا نہ کرو۔“ یعنی یا تو تم اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی رعایت کھو یا تم میرے مہمانوں کے بارے میں میرا لحاظ رکھو اور مجھے ان کے سامنے رسوا نہ کرو۔ ﴿ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ ﴾ ” کیا تم میں کوئی ایک آدمی بھی سمجھ دار نہیں ہے“ جو تمہیں روکے اور تمہیں زجروتوبیخ کرے۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ وہ لوگ بھلائی اور مروت سے بالکل خالی تھے۔