قَالُوا يَا هُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَن قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ
انہوں نے کہا اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی دلیل تو لایا نہیں اور ہم صرف تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے ہیں (١)
﴿قَالُوا﴾ انہوں نے ہود علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا : ﴿ يَا هُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ﴾ ” اے ہود ! تو ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لے کر انہیں آیا“ اگر دلیل سے مراد وہ دلیل ہے جس کا وہ مطالبہ کرتے تھے تو ایسی دلیل حق کی صداقت کے لئے لازم نہیں، بلکہ لازم صرف یہ ہے کہ نبی ان کو ایسی دلیل اور ایسا ثبوت پیش کرے جو اس کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتا ہو اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ ہود علیہ السلام ان کے پاس کوئی دلیل ہی نہیں لائے جو ان کی دعوت کی صداقت کی گواہی دیتی ہو تو اس بارے میں وہ جھوٹ کہتے ہیں، کیونکہ جب بھی کسی قوم میں کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر ایسے ایسے معجزات ظاہر کرتا ہے جو انسان کے بس میں نہیں ہوتے۔ اگر ان کے ہاتھ پر کوئی معجزہ نہ بھی ظاہر ہوا ہوتا سوائے دعوت کے جس میں دین کو اللہ وحدہ لا شریک کے لئے خالص کرنے کی تاکید ہو، نیک عمل اور اخلاق جمیلہ کا حکم دیا گیا ہو اور اخلاق مذمومہ، یعنی شرک، فواحش، ظلم اور دیگر مختلف قسم کی برائیوں سے روکا گیا ہو نیز اس کی تائید میں ہود علیہ السلام کی وہ صفات بھی ہوں جو مخلوق میں سب سے اچھے اور سب سے سچے شخص کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتیں، تو ان کی صداقت پر دلیل کے لئے یہی چیز کافی تھی۔۔۔۔۔۔ بلکہ عقلمند لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز مجرد خرق عادات معجزات سے زیادہ بڑی نشانی ہے۔ حضرت ہود علیہ السلام کی صداقت پر دلالت کرنے والی آیات و بینات میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ وہ فرد واحد ہے، اس کے کوئی انصار و اعوان نہیں، وہ اپنی قوم میں پکار پکار کر کہتا ہے اور ان کو عاجز کردیتا ہے وہ کہتا ہے ﴿إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّـهِ رَبِّي وَرَبِّكُم﴾ ” میں نے اللہ پر بھروسہ کیا جو میرا اور تمہارا رب ہے“ ﴿إِنِّي أُشْهِدُ اللَّـهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ مِن دُونِهِ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنظِرُونِ ﴾ ”ہود نے کہا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان ہستیوں سے بیزار ہوں جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے پھر تم سب مل کر میرے خلاف چالیں چل لو اور مجھے مہلت نہ دو۔“ وہ دشمن ہیں ان کے پاس سطوت، غلبہ اور اقتدار ہے وہ ہر طریقے سے اس روشنی کو بجھانا چاہتے ہیں جسے ہود علیہ السلام لے کر آئے ہیں وہ ان دشمنوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور یہ ہیں کہ ہود علیہ السلام کو کوئی نقصان پہنچانے سے عاجز اور بے بس ہیں۔ اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔ کفار نے کہا : ﴿ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَن قَوْلِكَ﴾ ” اور ہم تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں۔“ یعنی ہم مجرد تیرے قول پر جس پر۔۔۔ ان کے زعم کے مطابق۔۔۔ کوئی دلیل نہیں، اپنے معبودوں کی عبادت نہیں چھوڑ سکتے ﴿وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور ہم تیرا یقین کرنے والے نہیں ہیں“ یہ ان کی طرف سے اپنے ایمان کے بارے میں اپنے نبی ہود علیہ السلام کے ساتھ مایوسی کا اظہار تھا۔ وہ اپنے کفر میں ہمیشہ سرگرداں رہے۔