تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کرتے ہیں انھیں اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم (١) اس لئے کہ آپ صبر کرتے رہیئے (یقین مانیئے) کہ انجام کار پرہیزگاروں کے لئے ہے (٢)۔
یہ مبسوط قصہ بیان کرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔ جسے اس شخص کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا جسے اللہ نے اپنی رسالت سے نوازا ہے۔۔۔ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : ﴿ تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَا﴾ ” یہ غیب کی خبریں ہیں کہ ہم یہ آپ کی طرف وحی کرتے ہیں نہ آپ کو ان کی خبر تھی نہ آپ کی قوم کو، اس سے پہلے“ کہ آپ کی قوم یہ کہتی کہ یہ تو (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے ہی جانتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کیجیے اور اس کا شکر ادا کیجیے، اپنے موقف، یعنی دین قیم، صراط مستقیم اور دعوت دین پر نہایت ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہیے۔ ﴿ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ ﴾ ” بے شک اچھا انجام پرہیز گاروں کا ہے۔“ یعنی وہ لوگ جو شرک اور دیگر تمام گناہوں سے بچتے ہیں۔ آپ کی قوم کے مقابلے میں آپ کا انجام اسی طرح اچھا ہے جس طرح نوح علیہ السلام کی قوم کے مقابلے میں نوح علیہ السلام کا انجام اچھا تھا۔