حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا (١) ہم نے کہا کہ کشتی میں ہر قسم کے (جانداروں میں سے) جوڑے (یعنی) دو (جانور، ایک نر اور ایک مادہ) سوار کرا لے (٢) اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑچکی (٣) اور سب ایمان والوں کو بھی (٤) اس کے ساتھ ایمان لانے والے بہت ہی کم تھے (٥)۔
﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا ﴾ ” یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا۔“ یعنی جب وہ وقت آگیا جو ہم نے ان پر نزول عذاب کے لئے مقرر کیا تھا۔ ﴿وَفَارَ التَّنُّورُ ﴾ ” اور جوش مارا تنور نے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے زور دار بارش سے آسمان کے دھانے کھول دئیے اور تمام روئے زمین پر جا بجا پانی کے چشمے جاری کر دئیے حتیٰ کہ تنوروں سے بھی پانی ابلنے لگا جو کہ عادۃً آگ کا مقام ہے اور وہاں پانی کا ہونا بعید تر بات ہے۔ تنوروں میں بھی چشمے پھوٹ پڑے اور پانی اس کام کے لئے جمع ہوگیا جو مقدر ہوچکا تھا۔ ﴿وَ قُلْنَا ﴾ ” اور ہم نے کہا۔“ یعنی ہم نے نوح علیہ السلام سے کہا ﴿احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ﴾ ” ہر قسم میں سے جوڑا جوڑا اس میں سوار کرلیں۔“ یعنی تمام مخلوقات میں سے ہر صنف کا ایک جوڑا، یعنی نر اور مادہ کشتی پر سوار کرلیں، تاکہ تمام مخلوق کی اصل باقی رہے۔ رہا جوڑے سے زائدجانور سوار کرنا تو کشتی ان تمام جانوروں کو لادلینے کی گنجائش نہیں رکھتی۔ ﴿وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ﴾ ” اور اپنے گھر والوں کو، مگر جس پر سبقت کر گیا ہے حکم“ اور ان لوگوں کو چھوڑ کر جو کافر ہیں، مثلاً نوح علیہ السلام کا بیٹا جو غرق ہوا، اپنے گھر والوں کو بھی کشتی میں سوار کرلیں۔ ﴿وَمَنْ آمَنَ ﴾ ” اور سب ایمان والوں کو“ ﴿وَ ﴾ اور حال یہ ہے کہ ﴿مَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ﴾ ” ان کے ساتھ بہت ہی کم لوگ ایمان لائے تھے۔